سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن افضل خان نے بہت لرزا خیز انکشافات کئے ہیں۔ مگر انہیں انکشافات کہنا ٹھیک بات نہیں ہے کہ یہ باتیں ہو چکی ہیں۔ یہی باتیں خود عمران خان کر چکے ہیں اور بار بار کر چکے ہیں۔ عمران نے بھی انکشاف نہیں کئے تھے، الزام لگائے تھے۔ الزام میں کچھ کچھ انکشاف ہوتا ہے۔ جب افضل خان الیکشن کمشن میں تھے تو وہ کیوں خاموش تھے؟ خاموشی نیم رضا۔ تو الیکشن کمشن کی دھاندلی میں افضل خان بھی شریک تھے۔ یہ سوال برادرم مبشر لقمان نے بھی افضل خان سے کیا تھا مگر ہمارا کلچر ہے کہ ہم نوکریاں بچاتے ہیں۔ خاموش رہتے ہیں اور جب کوئی ڈیل یعنی کوئی سودا ہوتا ہے تو پھر بولتے ہیں۔ یہ بعداز وقت راگنی ہے۔ بے وقت راگنی میں سُر نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے تو یہ سر بن جاتا ہے جس کی جمع اسرار ہے۔ ”راز“.... راز میں مثبت اور منفی نقطے دونوں ہوتے ہیں۔ جب عمران نے رولا ڈالا ہوا تھا تو افضل خان کہاں تھے۔ اس وقت تک دھاندلی نہیں ہوئی تھی؟ رسول کریم کی حدیث ان کو یاد ہو گی۔ ”برائی کو ہاتھ سے روکو۔ زبان سے روک لو ورنہ دل میں برا سمجھو۔ مولوی افضل خان دل میں برا سمجھتے رہے ہوں گے۔ اب زبان کی باری آئی ہے۔ ہاتھ کب چلے گا؟
حیرت ہے کہ افضل خان مولانا فضل الرحمن کے آدمی ہیں۔ فضل الرحمن نے ان کا نام چیف الیکشن کمشنر کے طور پر پیش کیا تھا۔ ان کی داڑھی کچھ بڑی ہو جائے اور مونچھیں تو انہوں نے بالکل صاف کی ہوئی ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی لگیں گے۔ ان کے انداز و اطوار سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مولانا کی نقل بہت اڑاتے ہیں اس سے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ سکتے ہیں۔ لیڈر ایڈووکیٹ بہادر خاتون عاصمہ جہانگیر نے بھی افضل خاں پر تنقید میں طوطے کا ذکر کیا ہے۔ یہاں پر سلطان باہو کا یہ مصرعہ عرض ہے
تاڑی مار اڈا نہ باہو
اساں آپیں اُڈن ہارے ہو
بے لگام اور لوگوں کی زندگیاں حرام کرنے والے مخصوص میڈیا کے لئے نوید ہو کہ افضل خان خیر سے جرنلسٹ (صحافی) رہے ہیں۔ انہوں نے آغاز میں سرکاری خبررساں ایجنسی APP سے کیا اوروہ ”ترقی“ کرتے کرتے یہاں تک پہنچے ہیں یا پہنچائے گئے ہیں۔ غیر سیاسی راستوں پر بھی ڈیل وغیرہ ہوتی ہے اور ڈیلی (روزانہ) ہوتی ہے۔ افضل خان اچھے بھی لگے؟ پشتو کے محاورے اور ضرب المثالیں بھی سنا رہے تھے۔ اس ادبی مقابلے میں مبشر لقمان بھی شریک ہوئے۔ دونوں کی پشتو ہمیں سمجھ نہ آئی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن سے افضل خان کی کیا گڑ بڑ ہوئی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مولانا کی کوئی چال ہو۔ پروگرام کے ختم ہونے پر مبشر لقمان نے کہا کہ گھر جانے والے راستے میں افضل خان کی کچھ ہوا تو کون ذمہ دار ہو گا۔ یہ خطرہ نواز شریف کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس ریاض کیانی تو میڈیا پر آ گئے، چینل مختلف تھا۔ مگر ان باتوں کی بازگشت دور دور تک گئی۔ جواب آں غزل قریب قریب سے آیا۔ افضل خان نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو دھاندلی میں پوری طرح شریک قرار دیا۔ اب بات الیکشن کمشن کے دروازے پر ہے۔ الیکشن کمشن کا ایک سابقہ ذمہ دار آدمی کھلم کھلا الزام لگا رہا ہے تو کوئی بات تو ہو گی۔ اب بات بلکہ گیند عمران خان کی کورٹ سے نکل کر اصلی کورٹ میں جا پڑی ہے۔ کورٹ مارشل کا دھیان بھی آتا ہے اور خیال مارشل لاءکی طرف چلا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی بڑی خواہش ہے کہ مارشل لاءلگ جائے مگر پاک فوج کترا رہی ہے۔ وہ پاکستان کو بچانا چاہتی ہے۔ مارشل سے آج کل ائر مارشل اصغر خان بہت یاد آتے ہیں۔ عمران خان کو لوگ اصغر خان کا جانشین کہتے ہیں۔ سیاسی ائر مارشل عمران عمران خاں۔ عمران نے ابھی اپنے مخالف سیاست دانوں کو للکارا ہے۔ برا بھلا کہا ہے مگر ان کے نام نہبں رکھے۔ ہم عمران خان کو بتائیں کہ بھٹو صاحب نے ان کے آئیڈل اصغر خان کو آلو خان کہا تھا اور آلو مہنگے ہو گئے تھے آج کل تو آلو بہت ہی مہنگے ہیں۔ تحریک استقلال اور تحریک انصاف ہمارے ہاں کسی معاملے میںاستقلال نہیں اور انصاف کا نام و نشان کہیں نہیں ہے۔ دھرنے میں جو دھاندلی ہو رہی ہے اسے بھی افضل خان ہی بیان کریں گے۔
افضل خان نے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب چیف جسٹس ناصرالملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کہا جاتاہے؟ اس میں ادارے تباہ کر دینے کی سازش اپنے عروج پر ہے۔ سپریم کورٹ کے بعد الیکشن کمشن۔ اب صرف ایک ادارہ باقی رہ گیا ہے پاک فوج۔ اس کے بھی خلاف سیاستدان لگے ہوئے ہیں۔ یہ سب مارچ اور دھرنے حکومت کے خلاف دکھاوے کے لئے ہیں۔ اصل ٹارگٹ پاک فوج ہے۔ پاک فوج کو الجھانا اور سیاست میں کھینچ کے لانا ایک ایسی سازش ہے جس کا مقصد پاک فوج کو کمزور کرنے اور بے معنی کاموں میں پھنسانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ دس دن سے زیادہ ہوئے ہیں کہ پوری قوم کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ شکر ہے کہ پاک فوج سیاست دانوں کے سارے ہتھکنڈوں سے واقف ہے۔ پاک فوج متحد مضبوط پاکستان کی علامت ہے۔
افضل خان کے ”ملزم“ممبر الیکشن کمشن جسٹس (ر) ریاض کیانی نے استعفی دینے سے انکار کر دیا ہے جب کہ ان سے استعفی کا مطالبہ ابھی افضل خان نے بھی نہیں کیا ہے۔ ریاض کیانی نے کہا ہے کہ الیکشن کمشن میں ابھی کئی افضل خان موجود ہیں۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعد سامنے آئیں گے جس ادارے میں عمر بھر ملازمت کی ہے۔ اس پر صرف الزام لگائیں گے۔
دھرنے میں اس انٹرویو کے بعد عمران خان نے خطاب کیا لوگوں میں عورتوں اور بچوں میں جوش وخروش پیدا ہو گیا مگر علامہ طاہر القادری کے عوامی تحریک والے دھرنے میں کوئی ہلچل محسوس نہیں کی گئی۔ وہاں میرے دوست نوید خان پہلے دن سے موجود ہیں۔ وہ مسلم لیگ حقیقی کے صدر ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ مسلم لیگ غیر حقیقی کون سی ہے۔ نوید خان، عمران خان کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں۔ آج عمران کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک بھی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ عمران خان کے لئے دیسی مرغی پکڑنے میں تحریک انصاف کے نمایاں اور معروف آدمی ہونے کے باوجود خود نوید خان بھاگ دوڑ میں شریک ہوتے مگر عمران خان کی بے مروتی، بدلحاظی، نظرانداز کرنے کی عادت، دوستوں اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال نہ کرنے کی رعونت کو زیادہ دیر ایک دلیر اور سچا پٹھان بچہ نوید خان برداشت نہ کر سکا۔ مواحد حسین، معراج محمدخان، سابق گورنر بلوچستان اور خیبرپی کے اویس غنی اور نسیم زہرا کے علاوہ کئی خواتین و حضرات عمران خان سے بیزار ہوئے اور چھوڑ گئے۔ نوید خان کا خیال ہے کہ یہ پرانے لوگ وہ تھے جو واقعی نیا پاکستان کا خواب دیکھتے تھے۔ وہ انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد میں سمٹ آیا ہے۔ دھرنا تو عوامی تحریک کا ہے۔ عمران خان کے دھرنے کو نائٹ کلب سے تشبیہ دی جا رہی ہے مگر مجھے دکھ ہے کہ وہاں اسرارالحسن اور شہزاد رائے کے برابر میرے محبوب گلوکار اور بڑے آدمی عطااللہ عیسی خیلوی کو لے آیا گیا ہے۔ اب دھرنے کی سپیشل عورتیں ابرارالحق کے گانوں پر زیادہ مست ہو کے ناچتی ہیں۔ سنا ہے وہاں رات کے مناظر اور دوسرے مشاغل کی تصویریں بنائی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے شریف برادران سے کہا ہے کہ وہ آئیں اور بات کریں کچھ نہ کچھ طے کر لیا جائے گا۔ ایسے میں وہاڑی سے خان محمد اسلم خان کی تجویز بھی اچھی ہے کہ کوئی ثالثی فیصلہ کر لیا جائے۔ دونوں طرف سے دو، دو غیر جانبدار محب وطن آدمی ہوں جو فیصلہ کریں اور یہ ہنگامہ ختم ہو۔ عمران خان تو اب ”ناچ مارچ“ کا پروگرام بنا رہا ہے۔ ناچنا ایک فطری عمل ہے۔ اسے فطری رہنے دیا جائے تو اچھا ہے۔ دھرنے میں جو دھاندلی ہو رہی ہے۔ اس کی تحقیقات بھی ہو رہی ہے۔ اور افضل خان کس کا ”انتخاب“ ہے۔ یہ انتخابات والا انتخاب ہے۔ میں نے افضل خان کو صحافیوں سے لڑتے ہوئے دیکھا تب وہ الیکشن کمشن کی تعریف کر رہے تھے اور بہت معزز اور نوبل نگران وزیر داخلہ ملک حبیب جدون کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38