گھنٹی کو پنجابی زبان میں ’’ٹلّی‘‘ کہتے ہیں اور گھنٹے کو ’’ٹلّ‘‘ علّامہ طاہر اُلقادری کے ایک لڑکپن کے دوست (جو کئی سال پہلے طاہراُلقادری کی سائیکل کی پچھلی نشِست (Carrier) پر بیٹھ کر اُن کے ساتھ جھنگ سے لاہور آئے تھے) ۔ اِس لئے بابا ٹلّ کہلاتے ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے گلے میں ’’ٹلّ‘‘ لٹکائے رکھتے ہیں۔ بابا جی کے ہزاروں لاکھوں عقیدت مند اور نیاز مند ہیں۔ مَیں بھی اُن میں سے ایک ہُوں۔ اُن کے بارے میں ایک پنجابی اکھان ہے کہ ’’بابا ٹلّ‘‘ پکّی پکائی گھلّ‘‘ یعنی اے! بابا ٹلّ ہمیںپکی پکائی روٹی بھیج دیں!‘‘۔ وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دور میں ’’پکی پکائی تازہ روٹی کا پلانٹ لگا کر کہا تھا کہ ’’میں نے عوام سے کِیا گیا روٹی کا وعدہ پُورا کر دِیا ہے‘‘۔ بابا ٹلّ کی بد دُعا سے وہ پلانٹ بند ہو گیا اور سکریپ‘ اتفاق فائونڈری کے مالکان نے نیلامِ عام میں خرید لِیا تھا۔ ایک پنجابی لوک گِیت میں بے نظیر اِنکم سپورٹ یافتہ ایک خاتون نے اپنے شوہر سے مخاطب ہوکرکہا تھا کہ
’’جدوں آوے گا‘ بابا ٹلّ وے!
سارے مسئلے ہون گے‘ حلّ وے!‘‘
بابا ٹلّ کبھی کبھی میرے خواب میں آتے ہیں اور میرے ساتھ گپ شپ بھی کرتے ہیں ۔اِس بار تشریف لائے تو حسبِ عادت و روایت ہاتھ میں پکڑی ہُوئی لکڑی کی ہتھوڑی سے گلے میں لٹکے ہُوئے ٹلّ کو بجایا ۔ پھر وہ میرے ڈرائنگ رُوم میں سنگل صوفے پر بیٹھ گئے۔ اُن سے میرے جو ’’مذاکرات‘‘ ہُوئے وہ کچھ یُوں تھے۔
مَیں۔۔۔ جی آیاں نُوں بابا ٹلّ جی!۔ کافی دِنوں کے بعد تشریف لائے آپ؟
بابا ٹلّ۔ ’’میرے جھنگوی دوست طاہر اُلقادری کی طرح میرا بھی دُنیا کے 90 مُلکوں میں کاروبار ہے۔ مَیں بہت مصروف رہا‘‘۔
مَیں۔۔۔ آپ کے دوست تو اِن دِنوں کافی رش لے رہے ہیںاور حکمرانوں اور عوام کے لئے بے شمار مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تو کاروبارِ حیات ہی ٹھپ ہو گیا ہے۔ علّامہ طاہراُلقادری کی قیادت میں دھرنا دینے والے شِیر خوار بچّوں کی مائیں تو بہت ہی پریشان ہیں۔ آپ کُچھ کریں؟
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’جب شِیر خوار بچّوں کی مائوں کے شوہروں نے انہیں اپنے گھروں سے اسلام آباد آنے سے نہیں روکا تو مَیں بھلا کیا کر سکتا ہُوں؟۔ ہور چُوپو!‘‘۔
مَیں۔۔۔ کیا آپ وزیرِاعظم نواز شریف اور علّامہ طاہراُلقادری میں کوئی ’’مُک مُکّا‘‘ نہیں کرا سکتے۔؟
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’جب دونوں فریقوں میں سے کسی ایک نے بھی مجھ سے رابطہ نہیں کِیا تو مجھے کیا پڑی ہے کہ گلے میں لٹکے ہُوئے ٹلّ پر ’’مُکّ مُکا کرا لو!‘‘ کا اشتہار چسپاں کرکے وزیرِاعظم ہائوس کے سامنے اور علّامہ طاہر اُلقادری کے بُلٹ پرُوف کنٹینر کے پاس جا کر’’مُک مکا کرا لو!‘‘۔ کی آوازیں لگاتا پھروں؟‘‘۔
مَیں۔۔۔ علّامہ طاہراُلقادری نے تو کہہ دِیا ہے کہ ’’اگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف میرے دَر پر آ جائیں تو مَیں اُن کی بات سُن لوں گا؟‘‘۔
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔ یہ بھی خُوب رہی! علّامہ صاحب تو اِن دِنوں خود دربہ در ہیں۔ شریف برادران اُن کے کِس در پر جائیں؟ اور کیوں جائیں؟۔ جب مَیں طاہراُلقادری صاحب کے ساتھ جھنگ سے لاہور آیا تھا تو اُن کی سائیکل کے کیریئر سے حضرت داتا صاحب کے دربار پر ہی اُتر گیا تھا لیکن وہ کئی سال تک شریف خاندان کے در پر رہے۔ دَف بجا بجا کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتے رہتے تھے کہ؎
’’تیرے در پر صنم چلے آئے
بِن بُلائے ہی ہم چلے آئے‘‘
مَیں۔۔۔ بابا جی! مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے بعد جنرل یحییٰ خان کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کرکے وطن واپس آئے تھے تو انہوں نے کہا تھاکہ ’’اب دَما دَم مَست قلندر‘‘ ہو گا؟۔ پھر پاکستان دو لَخت ہو گیا۔ علّامہ طاہراُلقادری اب کِس قِسم کا ’’دَما دَم مَست قلندر‘‘ کرنا چاہتے ہیں؟
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’شاید طاہر اُلقادری نے اب قصور کے باباسیّد بُلّھے شاہ القادریؔ کے نقشِ قدم پر چلنے کا فیصلہ کرلِیا ہے۔ وہ اپنے پَیروں میں گُھنگرُو باندھ کر ’’دَما دَم مَست قلندر‘‘ کا وِرد کرتے ہُوئے وزیرِاعظم ہائوس کے سامنے دھمال ڈالنا چاہتے ہوںگے جیسے بابا بُلّھے شاہ نے اپنے رُوٹھے پِیر صاحب شاہ عنایت اُلقادری کو راضی کرنے کے لئے
’’تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا‘‘
کِیا تھا۔ مُمکن ہے کہ علّامہ القادری کے تھیّا تھیّا کرنے سے وزیرِاعظم نواز شریف مستعفی ہونے پر راضی ہو جائیں؟‘‘
مَیں۔۔۔ کیا علّامہ طاہر اُلقادری نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لئے ملکہ الزبتھ دوم کے سامنے بھی دھمال ڈالی تھی؟
بابا ٹل۔۔۔ اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم برطانیہ کے ساتھ ساتھ کینیڈا کی بھی ملکہ ہیں اور وہ دھمال کے نام سے آشنا ہی نہیں ہیں۔ طاہر اُلقادری نے کینیڈا کے "Home Office" سے دھمال ڈالنے کی اجازت مانگی تھی لیکن نہیں مِلی‘‘۔
مَیں۔۔۔ تو کیا کینیڈا میں نظام بدلنے یا اِنقلاب لانے کے لئے دھرنا دینے کی بھی اجازت نہیں ہے؟۔
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’علّامہ طاہراُلقادری نے ایک بار اجازت کے بغیر اپنے دونوں بیٹوں حسن محی اُلدین اور حسین محی اُلدین کو ساتھ لے کرکینیڈین پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دِیا تھا۔ حسن اور حسین نے تو معافی مانگ لی تھی لیکن علّامہ القادری صاحب اِنقلاب لانے کے لئے ڈٹّے رہے تو انہیں "Mental Hospital" لے جایا گیا اور کئی دِن تک بجلی کے جھٹکے دے کر چھوڑ دِیا گیا تھا‘‘۔
مَیں۔۔۔ بجلی کے جھٹکے ؟
بابا ٹلّ ۔۔۔ ’’جی ہاں! آپ نے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہوگا۔ علّامہ طاہر اُلقادری جب بھی تقریر کرتے ہیں تو اُن کی آنکھیں باہر نکلتی دِکھائی دیتی ہیں اور جسم اِس طرح حرکت کرتا ہے کہ جیسے انہیں بجلی کے جھٹکے دیئے جا رہے ہوں!‘‘
مَیں۔۔۔ اور علّامہ صاحب دَوران تقریر رومال سے اپنا تھوک بھی تو صاف کرتے ہیں؟
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’جب انہیں ہسپتال میں بجلی کے جھٹکے دِیئے جاتے تھے تو اُس وقت بھی اُن کے مُنہ سے تھوک بہت زیادہ نِکلتا تھا!‘‘
مَیں۔۔۔ اور رُومال؟
بابا ٹلّ۔۔۔ ’’کینیڈا ایک فلاحی مملکت ہے۔ کسی بھی مینٹل ہسپتال سے ’’فارغ اُلتحصیل مریض‘‘ کو تاحیات اُس کی ضرورت کے مطابق رومالوں کا کوٹہ دِیا جاتا ہے‘‘۔ علّامہ طاہر اُلقادری نے چونکہ کینیڈا کے شہری کی حیثیت سے ’’شیخ اُلاسلام‘‘ کا لقب اختیار رکھا ہے ٗ اِس لئے اُن کا رومالوں کا کوٹہ اُن کے "Status" کے مطابق مقرر کِیا گیا ہے‘‘۔
مَیں۔۔۔ علّامہ طاہراُلقادری کے دونوں بیٹے اِن دِنوں کہاں ہیں؟۔ کئی دِنوں سے وہ اپنے والدِ محترم کے ساتھ دِکھائی نہیں دے رہے؟
بابا ٹلّ۔۔۔ در اصل وہ دونوں ’’اِنقلاب‘‘ کے لئے ’’شہید‘‘ نہیں ہونا چاہتے‘ صِرف ’’غازی‘‘ بن کر زِندہ رہنا چاہتے ہیں۔ حسن اور حسین آج کل میری کفالت میں ہیں اور مجھ سے ’’ٹلّ‘‘ بجانا سِیکھ رہے ہیں۔ مَیں سوچ رہا ہوں کہ اُن دونوں کو باِلترتیب اپنا جانشین نامزد کردوں اور 90 مُلکوں میں اپنا کاروبار بھی اُنہی کے نام کردوں!‘‘
مَیں۔۔۔ کیا علّامہ طاہراُلقادری واقعی ’’شہید‘‘ ہونا چاہتے ہیں؟۔
بابا ٹلّ۔۔۔ اَیویں بڑھکاں مار رہے نیں! اور بازار سے اُدھار خریدے گئے کَفن کو لہرا لہرا کر اپنے مریدوں پر اپنی ’’شہادت‘‘ کا رُعب ڈال رہے ہیں۔ وہ تو اِس طرح کے ’’راست باز‘‘ہیں کہ کوئی عدالت بھی اُن کی ’’شہادت‘‘ یعنی گواہی‘‘ قبوُل نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ’’شہادت‘‘ کے درجے پر کیسے فائز کر دیں گے؟‘‘
مَیں۔۔۔ اور اُن کا کفن لہرانا ؟
بابا ٹلّ۔۔۔ دھرنا گاہ میں لہرانے سے پہلے انہوں نے اپنے کفن کو بھی بُلٹ پرُوف کرا لِیا تھا۔ ٹوپی ٗعینک ٗ جوُتے ٗ موزے اور سارالباس تو پہلے ہی بُلٹ پروف ہے۔اُن کی اُنگلیوں میں پہنی ہُوئی انگوٹھیاں بھی بُلٹ پروف ہیں‘‘۔ مَیں تو انہیں ہمیشہ ’’بُلٹ پرِوف ’’شیخ اسلام‘‘ ہی کہتا ہوں‘‘۔
مَیں ۔۔۔ اچھاجی ؟
بابا ٹلّ۔۔ ہاں جی! ’’اب خدا حافظ! پھرکبھی آئوں گا‘‘۔
اُس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024