حضور پاکؐ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی ریاست ہے۔خدائے وحدہٗ لاشریک نے اسے کفر و شرک کے گڑھ ہندوستان کے سینے میں خنجر کی مانند پیوست کر رکھا ہے۔ اس کی بنیاد دو قومی نظریے پر ہے اور اس کی بقاء کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس کے باشندے خود کو اس نظریے کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رکھیں۔ اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ انہیں اوائل عمر سے ہی اس ریاست کے قیام کے حقیقی اسباب و مقاصد سے روشناس کرا دیا جائے‘ اُن کے دل و دماغ میں پاکستان کی غایتِ وجود کو راسخ کردیا جائے‘ انہیں باور کرا دیا جائے کہ یہ ریاست دنیا میں اُن کی پہچان ہے‘ جائے پناہ ہے جس کا تحفظ ان کا فرضِ اوّلین ہے۔ انہیں یہ بتانا بھی لازم ہے کہ یہ ریاست ان کے آباو اجداد کو طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کے حصول کی خاطر مؤمنانہ فراست کے مالک ایک رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیرقیادت طویل جدوجہد کی گئی تھی۔ جواں جذبوں کے مالک بابائے قوم نے انگریزوں‘ ہندوئوں‘ سکھوں اور ناعاقبت اندیش وطن پرست مسلمانوں کے ایک گروہ سے چومکھی لڑائی لڑ کر اُن سے پاکستان چھین لیا تھا۔ انہیں ان تلخ حقائق سے آگاہ کیا جانا بھی ضروری ہے کہ 3جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مشرقی پنجاب میں لاکھوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کردیا تھا۔ دریائوں اور ندی نالوں کا پانی نہتے مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔ کنویں مسلمان عورتوں اور بچیوں کی لاشوں سے بھر گئے تھے جنہوں نے اپنی عزت و ناموس کے تحفظ کی خاطر موت کو گلے لگا لیا تھا۔ سکھ بلوائیوں نے تو معصوم شیرخوار بچوں کو بھی نہ بخشا تھا اور انہیں نیزوں کی انیوں میں پرو کر فضاء میں اچھالتے رہے تھے اور طنزاً کہتے تھے کہ یہ ہے باباقائداعظمؒ کا پاکستان۔ یہ آگہی پاکستان کی نئی نسل کو ہمارے ازلی دشمن بھارت کی مادر پدر آزاد ثقافتی یلغار سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ دراصل بھارت کے پالیسی ساز اداروں بالخصوص اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے بڑا سوچ سمجھ کر پاکستان کی نئی نسل کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اس پالیسی کو تقویت خود ہماری صفوں میں موجود ضمیر فروش عناصر کی طرف سے اس وقت فراہم کی گئی جب پاکستانی سینمائوں میں بھارتی فلموں کی نمائش اور ٹیلی ویژن چینلز پر بھارتی ڈرامے نشر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس صورتحال پر محبِّ وطن حلقے چیخ اٹھے تاہم اس کے ذمہ دار عناصر کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ بعدازاں جب کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزوں میں اضافہ ہوا اور وہاں تعینات بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو گولیوں اور مارٹر گولوں سے اندھا دھند نشانہ بنایا جانے لگا تو ان فلموں اور ڈراموں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بعدازاں ازسرنو ان فلموں کی نمائش کی اجازت دے دی گئی۔ دل کڑھتا ہے کہ دشمن کی موجودہ قیادت تو پاکستان کے حوالے سے اپنے مذموم عزائم کو برملا بیان کرتی پھرتی ہے اور ہم اس کی ثقافتی یلغار سے مجرمانہ چشم پوشی برت رہے ہیں۔ ایک طرف بھارتی حکومت نام نہاد مشترکہ تہذیب و ثقافت کا پرچار بڑی شد و مد سے کررہی ہے تو دوسری طرف ہمارے ہاں کچھ عناصر واہگہ بارڈر کو ایک غیرضروری لکیر سے تعبیر کرتے اور مل جل کر ہولی اور دیوالی منانے کے پرچارک ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ ان عناصر کو لبرل ازم اور آزادیٔ اظہار کے نام پر وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ کیا جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ جو چاہے ملک کی نظریاتی بنیادوں اور اسلامی تشخص پر کھلم کھلا وار کرتا پھرے؟ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ واحد ادارہ ہے جس نے سب سے پہلے اس سنگین صورتحال کا ادراک کیا۔ اس نے یہ خلاء محسوس کیا کہ تعلیمی اداروں میں تحریک پاکستان اور اسلامی اقدار پر مبنی نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت کیلئے کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ یہ علم و آگہی کے اوّلین گہوارے ہیں۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سرکاری و نجی تعلیمی ادارے میں نظریۂ پاکستان سوسائٹی قائم کی جائے جو نئی نسل میں وطن عزیز کی اسلامی نظریاتی اساس کے متعلق شعور بیدار کرے۔ اہل علم و دانش سر جوڑ کربیٹھے اور باہمی مشاورت سے ان سوسائٹیز کے لئے ایک جامع پروگرام ترتیب دیا۔ ٹرسٹ کی تجویز پر 18اگست 2004ء کو وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یہ سوسائٹیز تشکیل دی جائیں۔ بعدازاں 24اکتوبر 2008ء کو مسلم لیگی رہنما اور خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے بطور خاص تحریری ہدایات جاری کیں کہ صوبہ پنجاب کے ہر تعلیمی ادارے میں نظریۂ پاکستان سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ الحمدللہ! ٹرسٹ کی کوششوں سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد تعلیمی اداروں میں ان سوسائٹیز کا تنظیمی ڈھانچہ قائم ہوچکا ہے جو اپنے طور پر نظریاتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہیں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی مکمل رہنمائی اور تعاون حاصل ہے۔ان سوسائٹیز کی سرگرمیوں کو نوجوانو ںکے لئے شائع کردہ ٹرسٹ کے ماہنامہ ’’ہونہار‘‘ میں خصوصی طور پر اجاگر کیا جاتا ہے۔ انہیں مزید فعال بنانے اور ان میں نئی روح پھونکنے کی خاطر ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں شہر لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں میں قائم سوسائٹیز کے عہدے داران اور کارکنان نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ نے کی جنہوں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ وطن عزیز کے مستقبل کو تابناک اور محفوظ بنانے کے لئے لازم ہے کہ طلبا و طالبات میں حب الوطنی کے جذبات کو پروان چڑھایا جائے اور اس مقصد کیلئے تعلیمی اداروں میں مستقل بنیادوں پر ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے جن کی بدولت پاکستان کا اسلامی نظریاتی تشخص طالبعلموں کے دل و دماغ میں رچ بس جائے۔ اُنہوں نے سوسائٹیز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بانیانِ پاکستان کے فکر و عمل کی روشنی میں اساتذۂ کرام کو اپنے طلبہ کی کردار سازی کا سنہرا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اجلاس کے حاضرین نے ممتاز ادیبہ اور کالم نگار بیگم بشریٰ رحمن‘ معروف ماہر قانون پروفیسر ہمایوں احسان اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید کے خیالات سے بھی استفادہ کیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض پاکستان آگہی پروگرام کے کوآرڈی نیٹر سید عابد حسین شاہ نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔ حاضرین کے لئے ممتاز صنعت کار‘نامور سماجی و فلاحی شخصیت اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ٹرسٹی محترم افتخار علی ملک کی جانب سے ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38