بابا غلام عباس چیمہ (آف داتا دربار لاہور) نے مجھے ایک کتاب ’’جواہرِ اخلاق‘‘ بھجوائی تھی اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی بھجوایا کہ چِرند، پِرند اور دِرند بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ اگر آپ اپنے کالم میں اُن کا بھی ذکر کردِیا کریں تو آپ کو ثواب ملے گا‘‘۔ ’’جواہرِ اخلاق‘‘ 560 سے 520 قبل از مسیح لکھی گئی ایک یونانی دانشور اور تمثیل نگار ایسپ ؔکی تماثیل کا اردو ترجمہ ہے۔ اِس کا اُردو ترجمہ 1845ء میں ایک انگریز جیمز فرانسس کارکرن نے کِیا تھا، جو پاکستان میں آج سے 38 سال قبل پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہُوا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسپ سے منسوب ہونے والی یہ نثری حکایات ایتھنز میں بڑی مقبول تھیں اور بقول افلاطون ’’سُقراط نے اپنی اسارت کے دوران اُن میں سے بعض حکایات کو منظوم بھی کِیا تھا‘‘۔ ہماری روزمرہ کی گفتگو اور تحریروں میں جانوروں کے حوالے سے مُحاورے اور ضرب اُلِامثال استعمال ہوتے ہیں۔ انسان کو اپنی معاشرت کے حوالے سے ’’سماجی جانور‘‘ کہا جاتا ہے اور ہمارے سیاست دان خود کو ’’سیاسی جانور‘‘ کہلانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔
ہمارے یہاں بٹیروں، خاص طور پر بھوکے بٹیروں کے حوالے سے سیاسی جنگ کا جائزہ لِیا جاتا ہے۔ ’’پاکستان میں ایک لمبے عرصے تک ریاستی قوتوں ہی نے حکمرانی کی ہے۔ سیاست دان جِس اقتدار کی خاطر باہم دست و گریبان رہے، دراصل اُنہیں اقتدار کبھی ملا ہی نہیں‘‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’ریاستی قوتّیں ہمیں بھوکے بٹیروں کی طرح لڑاتی ہیں جِس کے نتیجے میں سیاسی قوتّیں کمزور اور ریاستی قوتّیں طاقتور ہوتی جا رہی ہیں‘‘۔ ایک اردو کی ضرب المثِل میں بھی بٹیر کو اسی طرح کا مشورہ دِیا گیا ہے کہ ؎
’’تِیتر تو اپنی آئی مرا، تو کیوں مرے بٹیر!‘‘
لیکن جب بٹیروں کو پالا ہی اِس غرض کے لئے ہو کہ کل انہیں آپس میں لڑایا جائے گا تو اِس کا کیا جواب؟ بٹیروں کی لڑائی میں ’’بٹیر باز‘‘ کا کردار نمایاں ہوتا ہے، ہر بٹیر کو فسانۂ آزاد کے میاں خوجی کے ’’صف شِکن‘‘ ہونے کا احساس دِلاتا ہے۔ ایک پنجابی اکھان کے مطابق ’’بٹیرے نئیں لڑدے، اُستاداں دے ہتھ لڑدے نیں‘‘ یعنی اصل کمال بٹیروں کا نہیں بلکہ اُنہیں لڑانے والوں کا ہے، حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ بھوک بھی اہم فیکٹر ہے اور پھر مرغانِ دست آموز کو تو بہت ہی زیادہ بھوک لگتی ہے۔
’’مرغِ عیسیٰ ؑ‘‘ اُس پرندے کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ ؑنے مٹّی سے بنا کر اُس میں رُوح پھونک دِی تھی۔ آج کے دَور میں ہر مرغ (یعنی اڑنے والا جانور) خود کو مرغِ عیسیٰ ؑقرار دیتا ہے، اُن میں کئی بھوکے بٹیر بھی شامل ہیں جِن میں رُوح ہی اِس غرض سے پھونکی گئی ہے کہ وہ لڑیں اور مریں۔ آج کے کالم میں چند ایک تماثِیل پیش کی جا رہی ہیں، باقی پھر کبھی سہی۔ ’’نقلِ کُفر، کُفر نہ باشد‘‘ اگر کوئی چِرند، پِرند یا درِند یا ناراض ہو تو اس کا ذمہ دار مجھے نہیں بلکہ بابا غلام عباس چیمہ کو ٹھہرایا جائے جنہوں نے مجھے میرا اور مجھ جیسے لوگوں کا اخلاق دُرست کرنے کے لئے ’’جواہرِ اخلاق‘‘ بھجوائی۔
’’ابابِیل کا چِڑیوں کو خبردار کرنا‘‘
’’ایک کسان سَن کی تُخم پاشی کر رہا تھا۔ ابابیل نے چڑیوں کو خبردار کِیا کہ جب سَن کی فصل تیار ہوگی تو اُس سے صیّاد ہمیں پھنسانے کے لئے پھندا بنائے گا۔ مناسب ہے کہ ہم سب مل کر ایک ایک بِیج کو چُن کر کھیت سے باہر پھینک دیں، لیکن چڑیوں نے پروا نہ کی۔ جب درخت ہو چلا تو ابابیل اس علاقے سے ہجرت کرگئی لیکن جاتے جاتے خبردار کرگئی کہ ’’تمہارا انجام اچھا نہ ہوگا‘‘۔ تھوڑے دِن بعد سَن تیار ہوا اور صیّادوں نے اسے بٹا اور جال بنا کر چڑیوں کو پھانس لیا‘‘۔
’’ چِیل کی اپنی ماں کو نصیحت‘‘
’’ایک چِیل قریب اُلمرگ تھی وہ رونے لگی۔ بیٹی کہنے لگی کہ ’’اماں! رونے کانپنے سے کیا ہوگا؟ پِیروں سے مناجات مانگو کہ میری جان بچے‘‘ ماں نے جواب دِیا کہ ’’اے لڑکی! کون سا پِیر میری تمہاری سُنے گا؟۔ اُن سب کی قُربانی کا گوشت ہم نے چُرایا ہے۔ اب ہم پر کون رحم کرے گا؟‘‘
کبوتروں کا محافظ… شہباز
’’ایک دفعہ جب کبوتروں نے دیکھا کہ چِیل اُن کو بہت ستانے لگی ہے تو اُنہوں نے شہباز کو اپنا محافظ مقرر کرلِیا۔ شہباز کو اچھا موقع ہاتھ آگیا۔ وہ ایک ایک کر کے کبوتروں کو کھانے لگا۔ چِیل نے دو مہینوں میں اتنا نقصان نہیں کِیا تھا جِتنا شہباز نے گھر میں رہ کر دو ہی روز میں کردِیا‘‘۔
کسان اور سانپ کی دُشمنی
’’ایک کسان کے بیٹے نے سانپ پر پائوں رکھ دِیا۔ سانپ نے لڑکے کو ڈس لِیا اور وہ مرگیا۔ کسان نے غصے میں آ کر سانپ پر وار کِیا لیکن وار خالی گیا مگر وار کا نشان پتھر پر رہ گیا۔ ایک مُدت کے بعد کسان نے سانپ کو دوستی کا پیغام بھجوایا تو سانپ رضا مند نہ ہوا اور اُس نے اپنے جوابی پیغام میں کہا کہ ’’جب تک تم اپنے بیٹے کی موت کو یاد رکھو گے اور مَیں پتھر پر لگے نشان کو، ہم دونوں میں دوستی نہیں ہوسکتی!‘‘۔
سانپ اور لوہار کی ریتی
’’ایک سانپ لوہار کی دُکان میں گھس گیا اور اُس نے ایک ریتی کو چاٹنا شروع کِیا اس کی زبان لہو لہان ہوگئی وہ یہ سمجھ کر خوش ہوا کہ ’’مَیں نے ریتی کا خون پِیا‘‘ اِس تصّور میں وہ زیادہ زور سے ریتی کو چاٹنے لگا۔ یہاں تک کہ درد سے بیتاب ہوگیا۔ پھر وہ ریتی کو دانت سے کاٹنے لگا، مگر اس کے سب دانت ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے‘‘۔
چمگادڑ کا انجام
’’ایک دفعہ پرندوں اور چِرندوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ چمگادڑ نے دیکھا کہ چِرند غالب آ رہے ہیں تو اُن سے جا ملی لیکن چند روز بعد جب پرندوں نے چِرندوں پر حملہ کرکے اُنہیں بھگا دِیا تو چمگادڑ نے پرندوں کی حمایت کا اعلان کردِیا۔ پرندوں نے غدار چمگادڑ کے بال و پر نوچ کر اسے لنڈورا بنا دِیا اور حُکم ہوا کہ وہ نمک حرام رات کے سوا ہر گز گھر سے باہر نہ نکلے‘‘۔
بادشاہ کا گھوڑا
’’ایک بادشاہ کا گھوڑا زیورات سے لدا جا رہا تھا کہ راستے میں ایک غریب گدھے سے ملاقات ہُوئی اور ڈانٹ کر کہنے لگا کہ ’’کیوں بے گدھے! تو مجھے نہیں پہچانتا، مَیں شاہی گھوڑا ہُوں، جب میرا آقا مجھ پر سوار ہوتا ہے ، میری پیٹھ پر ساری سلطنت کا بوجھ ہوتا ہے، میری راہ سے ہٹ جا‘‘۔ بیچارے گدھے نے ڈر کر راستہ چھوڑ دِیا اور اپنی بے کسی پر رونے لگا کچھ دنوں بعد گدھے نے دیکھا کہ بادشاہ کا وہی گھوڑا ایک بھنگی کی گاڑی میں جُتا ہُوا ہے۔ گدھے نے پوچھا ’’کیوں میاں گھوڑے! یہ کیا ماجرا ہے؟ ‘‘۔ گھوڑے نے جواب دِیا کہ ’’مَیں بہت سی لڑائیوں میں حصہ لینے کے بعد زخمی اور بیکار ہوگیا تھا اور اب میں بادشاہ کے کسی کام کا نہیں رہا‘‘۔
بوڑھے شیر کو گدھے کی لات
’’ایک شیر بہت ظالم تھا جب وہ بوڑھا ہوگیا اور اُس میں چلنے پھرنے کی سکت نہ رہی تو سب جانور ایک ایک کرکے اُس پر ٹُوٹ پڑے اور بوڑھے شیر کی خوب مرمت کی۔ شیر مار کھاتا رہا لیکن جب گدھے نے اُسے مارنے کیلئے لات اُٹھائی تو شیر ذِلت کے صدمے سے مرگیا‘‘۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024