عزت مآب امام کعبہ ڈاکٹر سید خالدالغامدی نے کہا کہ میری ماں نے 40سال تک دعا مانگی تو پھر مجھے روضہ¿ رسول کی ہمسائیگی میں مسجد نبوی کی امامت کا شرف حاصل ہوا اور اب وہ پچھلے آٹھ سال سے خانہ کعبہ میں امام الحرم المکی ہیں۔ وہ جوان آدمی ہیں خوبصورت ہیں اور ایک روحانی برکت ان کے چہرے پر ہے۔ وہ ان تھک آدمی ہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے جگہ جگہ نماز کی امامت بھی کرتے ہیں اور خطاب بھی کرتے ہیں۔
بحریہ ٹاﺅن میں بڑا اجتماع تھا۔ ملک ریاض بھی موجود تھے۔ منصورہ میں بھی بہت جوش و خروش تھا۔ سراج الحق لیاقت بلوچ اور حافظ ادریس نمایاں تھے۔ جامعہ اشرفیہ میں بھی وہ گئے۔ مولانا فضل الرحیم ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ مگر شاہی مسجد میں سب سے بڑا اجتماع تھا۔ مسجد کا طویل و عریض صحن خواتین و حضرات سے بھرا ہوا تھا۔ لوگ یہاں اور ہر جگہ خود بخود کھچے چلے آئے۔ منصورہ میں جماعت اسلامی کے علاوہ بھی بہت لوگ تھے۔ جامعہ اشرفیہ بھی بہت بڑی عمارت ہے۔ شاہی مسجد کے باہر بھی بہت لوگ تھے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے جیسے مظاہرہ کر رہے ہوں۔ آج دل کا مظاہرہ تھا۔ وہ اس شخص کو دیکھنے آئے تھے جو دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو حج پڑھانا ہے۔ کئی سادہ لوگ تو آج کی نماز کے لئے بہت خوش تھے اور دل میں تڑپ کی فراوانی لئے ہوئے اپنی قسمت پر نازاں تھے۔
شاہی مسجد کے امام بہت جلیل القدر عالم دین پاکستان کے لئے اچھے ارادوں اور آرزوﺅں سے بھرے ہوئے۔ عالم اسلام کے اتحاد کے بہت بڑے لیڈر مولانا عبدالخبیر آزاد نے امام کعبہ کا والہانہ پن سے استقبال کیا بلکہ وہاں موجود لوگوں کے بے پناہ ہجوم کا بھی خیرمقدم کیا۔ سٹیج پر موجود بڑے بڑے جید عالم دین روحانی شخصیات اور دانشور موجود تھے۔ کئی دوستوں نے تو کئی برسوں کے بعد نماز پڑھی ہو گی۔ اس کا کریڈٹ امام کعبہ اور امام شاہی مسجد کو جاتا ہے۔
وہاں میں نے حکومت کا کوئی نمائندہ نہ دیکھا مگر انتظامی اور سکیورٹی معاملات کی نگرانی کے لئے خود سی سی پی او کیپٹن (ر) محمد امین وینس موجود تھے۔ ان کو عبدالخبیر آزاد نے امام کعبہ سے ملوایا اور پھر وہ سٹیج پر لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے۔ وہ نہ آتے تو بھی سکیورٹی کے بہت زبردست انتظامات تھے۔ میری ملاقات بھی برادرم خبیر آزاد نے امام کعبہ سے کروائی۔ وہ بڑی محبت سے ملے اور میری پگڑی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہاں بہت بڑے عالم دین حافظ زبیر احمد ظہیر سے کسی عربی نے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہے تو انہوں نے ازراہ مذاق فرمایا یہ صحافیوں کے امام ہیں۔ امام کا لفظ کئی معانی رکھتا ہے۔ یہ بات محبت سے کہی گئی ہو گی۔ ورنہ میں تو ایک معمولی آدمی ہوں۔ میرا اعزاز صرف یہ ہے کہ صحافت میں میرے مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی ہیں۔
برادرم عبدالخبیر آزاد امام کعبہ کی تقریر سے پہلے سٹیج پر بہت جوش و خروش میں تھے۔ وہ لوگوں اور امام صاحب کے درمیان رابطے کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ وہاں ایسا انتظام تھا کہ لاکھوں خواتین و حضرات میں سے ہر ایک نے امام کعبہ کو بڑی محبت سے دیکھ لیا اور ان کی تقریر اتنے غور سے سنی جیسے انہیں عربی زبان آتی ہو۔ انہیں معلوم تھا کہ امام صاحب جو بھی کہہ رہے ہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے عام طور پر اور خاص طور پر پاکستان کے مسلمانوں کے لئے سلامتی، اللہ کی محبت اور عشق رسول کی بات کر رہے ہوں گے۔ وہاں ڈاکٹر محمد الیاس بھی تھے جو امام صاحب کے ترجمان ہیں مگر امام صاحب کی تقریر کا ترجمہ نہ سنایا گیا۔ مولانا عبدالخبیر کی تقریر میں وہی کچھ تھا جو امام کعبہ کی تقریر میں تھا۔ خیبر آزاد نے شاہی مسجد کو پاکستان کا مرکز بنا دیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ہر مسلمان استعمال کر سکتا ہے۔ یہاں مکاتب فکر کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ صرف یہ کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ مولانا عبدالخبیر آزاد نے اپنے عظیم والد مولانا عبدالقادر آزاد کے ہر راستے کو آباد کیا ہے۔ بڑے تدبر اور تفکر سے سب معاملات کو چلایا ہے۔ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو سرزمین حجاز کا سپاہی کہا۔ سعودی عرب سے بڑھ کر کوئی برادر ملک نہیں ہے۔ امام کعبہ ڈاکٹر خالدالغامدی نے پاکستان کے لئے نعرے لگوائے۔ سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کی بھرپور بات کی۔ انہوں نے کہا کہ دشمن ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ ہمیں اب یگانگت اور محبت کی روایت کو زندہ رکھنے کی ضرورت جتنی آج ہے کبھی نہ تھی۔ مولانا عبدالقادر آزاد اتحاد بین المسلمین اور مذاہب کے بہت بڑے داعی تھے۔ وہ فرقہ واریت کو اسلامی اجتماعیت میں لانا چاہتے تھے۔ میری بھی ان کے ساتھ بہت نیازمندی تھی۔ وہ بڑی شفقت کرتے تھے۔ کھلے دل کے آدمی تھے۔ ان کی وجہ سے تنگ نظری کی فضا کافی ختم ہوئی۔ اب ان کے صاحبزادے اپنے والد کے ہمشکل اور ہمراز مولانا عبدالخبیر آزاد ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ تمام حلقوں میں ان کی پذیرائی ہوتی ہے۔
شاہی مسجد میں خواتین بھی بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے بھی امام کعبہ کی امامت میں نماز پڑھی۔ پولیس والوں نے بھی اپنی ٹوپیاں الٹی کر نماز ادا کی۔ سی سی پی او کے ساتھ سپاہی بھی کھڑے تھے۔ کئی کنسٹیبل ان سے اگلی صفوں میں تھے۔
مجھے برادرم ناصر اقبال خان نے بتایا کہ سی سی پی او نے مساجد میں بھی لوگوں کے مسائل سنے اور انہیں فوراً حل کرنے کے لئے کھلی کچہریوں کا بندوبست کیا ہے۔ ڈی ایس پی اور ایس ایچ موجود ہوتے ہیں۔ نماز کے بعد ان سے لوگوں کی دوستانہ ملاقات ہوتی ہے۔ ایک پولیس والا کہنے لگا اور تو کوئی مشکل ہمیں نہیں ہے صرف نماز باقاعدگی سے پڑھنی پڑتی ہے۔ شاہی مسجد برادرم طاہر اشرفی اپنی بہت موجودگی سے قابل توجہ تھے۔ وہ انتظامات کو سنبھالتے ہیں۔ عبدالخبیر آزاد کے کارکنوں کی مدد کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ امام کعبہ کی عوامی پذیرائی دیکھ کر اطمینان اور حیرت ہوئی ہے۔
عظیم الشان شاہی مسجد میں اتنے ایمان افروز اور ولولہ انگیز اجتماع کے لئے ہم مولانا عبدالخبیر آزاد کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ نماز کے بعد ایک بڑے ہوٹل میں امام کعبہ کے ساتھ کھانے کی دعوت بھی تھی۔ وہاں ہم پہلے سے زیادہ خوش ہوئے۔ حیران بھی ہوئے۔ برادرم طاہر اشرفی اپنی خوبصورت گفتگو سے ماحول کو کشادہ بنائے ہوئے تھے۔ یہاں ہر مکتب فکر کے نمایاں اور اہم لوگ موجود تھے۔ دیگر مذاہب کی نمائندگی بھی تھی۔ شاندار شخصیات والے بشپ (سابق) الیگزینڈر جان ملک میرے ساتھ والی نشست پر تھے۔ وہ اسلامی علوم میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ بائیں طرف چیئرمین پاکستان ہندو ویلفیئر کونسل کرشنا مندر ڈاکٹر منوہر چاند اور سکھ سردار جنم سنگھ بھی موجود تھے۔ محمد حنیف جالندھری مولانا وہاب روپڑی مفتی سیف اللہ بہت بڑے شیعہ عالم دین مولانا حسین اکبر اور کاظم رضا نقوی، آرچ بشپ سبسٹین شا وکلا اور سابق جج صاحبان سلیم صافی اور کئی دوسرے لوگ موجود تھے۔ وہاں وزیر عطا محمد مانیکا موجود نہ تھے مگر ان کا نام اہم لوگوں میں لیا گیا۔
شہباز شریف نے امام صاحب کے اعزاز میں ایک شاندار ناشتہ دیا۔ شہباز شریف کی گفتگو حسب معمول بہت دلچسپ اور بامعنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دو بھائیوں کی طرح ہیں۔ دنیا والے دیکھ لیں اور سازشی عناصر عبرت پکڑیں۔ ہم تو نماز بھی کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں۔ شہباز شریف کی اس بات پر یہ واقعہ یاد آیا ہے۔
فتح مکہ کے بعد حضور نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کے کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دو۔ وہ چھت پر حیران کھڑے رہ گئے۔ حضور نے پوچھا تو حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ مدینے میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر اذان دیتا ہوں۔ اب کیا کروں۔ حضور نے بے ساختہ فرمایا کہ منہ میری طرف کر لو۔ اس جملے میں کیا راز اور معانی ہیںاس پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024