پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ خان مجھے اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ ان کی مونچھوں کا سٹائل میرے چچا رانا فتح محمد چوہان کی مونچھوں کا سا ہے جو 1947ء میں سکھوں کی ریاست نابھ سے چند میل دور سکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ رانا ثناء اللہ صاحب کی ’’جُگت بازی‘‘ نے ان کی سیاست کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ میں اگر خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کا مشیر ہوتا تو ان کو مفت مشورہ دیتا کہ پنجاب میں ایک وزارت اور بنا دی جائے جس کا نام و ’’وزارت جُگت بازی‘‘ اور رانا ثناء اللہ صاحب کو وزارت قانون کے ساتھ ساتھ‘ وزارت جُگت بازی کا محکمہ بھی دیدیا جائے۔
"! CAT WALK OF - P.T.I''
2 نومبر کو اسلام آباد میں جناب عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا صاحب نے کہا ’’2 نومبر کو پی ٹی آئی کا Lock - Down'' حکومت کے سر پر سوار نہیں ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی پہلے بھی اس طرح کی ''Cat Walk" کئی بار کر چکی ہے۔‘‘ مسئلہ یہ ہے کہ میں اردو میڈیم بھی نہیں بلکہ پنجابی میڈیم ہوں۔ میں تو پہلے ہی پریشان تھا کہ کسی بھی سٹیج پر خوبصورت خواتین کا زرق ورق لباس پہن کر مٹک مٹک کر چلنے اور مڑ کر دوبارہ اور سہ بارہ چلنے کو ’’کیٹ واک‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
رانا ثناء اللہ خان کی مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان ’’شیر‘‘ ہے اور میں نے پڑھا اور سنا ہے ''CaT'' (بلی) کو شیر کی خالہ کہتے ہیں۔ ایک ضرب المثل ہے کہ … بلی کی میائوں سے ڈر لگتا ہے یا بلی کی میائوں کو کون پکڑ سکتا ہے؟ یا تو بلی کی میائوں سے کم از کم اس کے پالنے والے کو ڈر نہیں لگتا۔ جناب آصف زرداری اپنے عہدے کی مدت ختم کر کے رخصت ہوئے تو قومی اخبارات میں خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’جناب آصف زرداری اپنی پالتو بلی ایوان صدر میں چھوڑ گئے ہیں۔‘‘
میں نے اُس بے آسرا بلی کی حمایت ہمدردی میں کالم لکھا تھا۔ میں نے اُن دنوں نیویارک میں تھا اور میں نے پوچھا تھا کہ ’’کیا نئے صدرمملکت جناب ممنون حسین نے سابق صدر زرداری کی فراموش کردہ بلی کو "Adopt'' کر لیا ہے۔ اب کیا موصوفہ نے اپنا گھر بنا لیا ہے؟ یا وہ اپنی باقی عمر یاد الٰہی میں گذارنے کیلئے کسی جنگل کو چلی گئی ہے؟ لیکن مجھے کہیں سے بھی میرے ان سوالات کے جوابات ابھی تک نہیں ملے۔
’’بلی شیر کی خالہ ہوتی ہے‘‘ تو ’’بلا‘‘ اُس کا خالو ہوا۔ ایک دن نہ جانے کس ترنگ میں آکر جناب زرداری نے سابق صدر جنرل پرویزمشرف کو ’’بلا‘‘ کہہ کر پکارا اور جنرل (ر) پرویزمشرف نے تو کیا آل پاکستان مسلم لیگ کے نائب صدر صاحبزادہ احمد رضا قصوری نے بھی زرداری صاحب کی اس ’’جُگت بازی‘‘ کا نوٹس نہیں لیا۔ بعض اوقات اپنے رقیبوں سے یہ کہہ کر ’’جُگت بازی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ’’فلاں کام کرنا خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔‘‘ اور اُستاد شاعر شاد لکھنوی نے نہ جانے کسی برہمن سے کہا تھا کہ ؎
’’دل میں گھر کرنا بُتوں کے کارِ بازی گر نہیں
برہمن : کعبہ ہے یہ‘ کچھ خالہ جی کا گھر نہیں‘‘
اُس کے بعد کرنا خدا کا ہوا کہ مارچ 2014ء میں رائے ونڈ میں جناب وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ جاتی عمرا میں داخل ہوکر کوئی جنگلی بلا وزیراعظم صاحب کا لاکھوں روپے کا قیمتی مور ہڑپ کر گیا۔ جناب عمران خان کی پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ''Bat'' (بلا) ہے۔ اگر بلّا بھی ہوتا‘ وہ ’’جُگت بازی‘‘ میں ماہر ’’میرے ممدوح‘‘ رانا ثناء اللہ خان اور ان کے ساتھیوں کا کیا بگاڑ لیتا۔ علامہ طاہرالقادری کا تعلق جھنگ سے ہے اور میرا لاہور سے۔ ہم دونوں نے ’’مدت ہوئی ’’تانگا بانی‘‘ چھوڑ دی ہے‘ لیکن ہمیں تانگا بانی کی اخلاقیات کا ابھی تک پاس ہے۔ پنجابی فلم کا ایک گیت ہم دونوں کو پسند ہے جس کا مکھڑا ہے ؎
’’تانگا لہور دا ہووے‘ بھاویں جھنگ دا
تانگے والا خیر منگدا‘ تانگے والا خیر منگدا‘‘
جناب اسحاق کی … ’’ڈار کہانی؟‘‘
اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’پاکستان نے 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کے بعد ترقی کی کئی منازل طے کر لی ہیں حالانکہ حضرتِ داغ دہلوی نے کہا تھا کہ ؎
’’رہِ عشق میں راہزن کیا نہ ہوگا؟
مجھے فکر منزل بمنزل یہی ہے‘‘
لیکن جنابِ ڈار کسی راہزن سے فکرمند نہیں۔ فرماتے ہیں ’’تین سال پہلے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سات ارب ڈالرز سے بھی کم تھے۔ اب انیس ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘ جناب ڈار نے یہ نہیںبتایا کہ ’’تین سال کے عرصے میں مہنگائی کس رفتار سے بڑھی؟‘‘ ایک ماہ پہلے (25 ستمبر کو) سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنے سربراہ جناب اشرف وتھرا کی اجازت / منظوری سے اپنی (Monetary Policy) (مالیاتی پالیسی) کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں مہنگائی دوگنا ہو گئی ہے۔‘‘
اس سے قبل 5 مئی 2014ء کو قازقستان کے شہر ’’آستانہ‘‘ میں ایشیائی ترقیاتی بنک کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنا بِ اسحاق ڈار نے بتایا تھا کہ ’’ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بارہ ارب ڈالرز سے زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘ اور صاحب نے اس وقت بھی نہیں بتایا تھا کہ ’’وطن عزیزمیں مہنگائی کس رفتار سے بڑھ ہی ہے؟‘‘ اس اجلاس میں شریک ایشیائی ملکوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے جنابِ ڈار نے کہا تھا کہ ’’دنیا میں 40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ ’’پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 60 فیصد ہے۔‘‘ (یہ اقبالی بیان تو جنابِ اسحاق ڈار کئی بار الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دے چکے ہیں۔)
’’آستانہ‘‘ کے اجلاس میں ڈار صاحب نے اپنے ہم منصب وزرائے خزانہ کو تجویز پیش کی تھی کہ غربت کی نئے سرے سے ’’تعریف‘‘ کی جائے ’’ممکن ہے کہ جنابِ ڈار نے اپنی تقریر میں لفظ ''Definations'' استعمال کیا ہو؟ لیکن اردو اخبارات نے تعریف ''Praise" (تعریف و توصیف) کے معنی میں لیا اور میں نے بھی اپنے 7 مئی 2014ء کے کالم کا عنوان یہی رکھا کہ ’غربت کی تعریف جنابِ ڈار کے منہ سے۔‘‘
میرے کالم میں ’’مسماۃ غربت‘‘ کا طویل انٹرویو تھا‘ لیکن میں اس کا خلاصہ یوں بیان کر سکتا ہوں ’’مسماۃ غربت‘‘ نے میرے سوالوں کے جوابات میں کہا تھا کہ اگر غربت کی ( یعنی میری) تعریف کریں تو اس سے میرا پیٹ نہیں بھرے گا۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ ’’میری اور میری سوتن‘‘ امارت کی لکیریں اللہ تعالیٰ کے کسی فرشتے نے کھنیچی ہیں؟ اور پاکستان کی ہر حکومت ان لکیروں کی فقیر کیوں بن جاتی ہے؟‘‘
’’مسماۃ غربت‘‘ نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ ’’صدر پرویز مشرف کے دور میں پاکستان میں 40 فیصد لوگ میری (یعنی غربت کی) لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے تھے۔ صدر آصف زرداری کے دور میں 50 فیصد اور میاں نوازشریف کے دور میں 60 فیصد اور میں نے اس کے جواب میں وزیراعظم نوازشریف اور جناب ڈار کی تعریف (Praise) کی تو ’’مسماۃ غربت‘‘ نے میرے ڈرائنگ کے دروزاے پر لات ماری اور میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں جب کبھی جنابِ اسحاق ڈارکے بیان پر چھوٹی موٹی تنقید کرتا ہوں تو میرے دوست شاعرِ سیاست مجھ سے ناراض ہونے کا ناٹک کرتے ہیں کہ اثر چوہان صاحب! اگر آپ کے اپنے کسی ’’کڑم‘‘ (سمدھی) سے اپنے تعلقات نہیں ہیں تو آپ وزیراعظم نوازشریف اور جناب اسحاق ڈار کے اچھے تعلقات سے حسد کیوں کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ ’’یاری پر کڑما چاری کو ترجیح دینا چاہئے۔‘‘ کہا کہ ؎
’’ایہہ نہ سمجھو‘ میری اونہا دی
سُکیّ‘ بھُکیّ‘ یاری جی!
رب سوہنے نے آپ بنائی
ساڈی کڑما چاری جی!‘‘
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024