کالم کا عنوان نامور شاعر جلیل عالی کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ آصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف نے زرداری صاحب کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ عمران تو کسی ہم عصر سیاستدان سے ملتے ہی نہیں مگر قسمت اچھی ہے کہ گذشتہ دنوں دانشور سیاستدان ڈاکٹر بابر اعوان نے عمران کو جائن کر لیا۔ اس دوران ایک اہم سیاستدان بہت دفعہ ممبر اسمبلی اور وزیر رہنے والے مخلص سیاستدان رانا آفتاب نے بھی تحریک انصاف کو جائن کر لیا۔ یہ دونوں کمٹڈ لوگ ہیں۔ ان کی وجہ سے عمران خان کو فائدہ ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی لگتا ہے کہ عمران خان کوئی فائدہ اٹھانا ہی نہیں چاہتے۔
ان کا دھرنا اتنے دنوں تک قائم رہنے کے بعد ختم ہو گیا اور کوئی نتیجہ بھی نہ نکلا۔ اب بھی کوئی نتیجہ نکلنے کا امکان نہیں ہے۔ اور ہے بھی۔ اگر یہ دھرنا پورے پاکستان میں پھیل گیا اور لگتا ہے کہ پھیل جائے گا تو مشکل ہو گی۔ یہ تبدیلی عمران خان والی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تبدیلی تو کئی مرتبہ آ چکی ہے۔ آ کے جا بھی چکی ہے۔ عمران خان کے بقول تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ گئی ہے۔
کہیں یہ دھرنا دھر رگڑا نہ بن جائے۔ اس سے پہلے اس طرح کے مولوی صاحبان نہیں دیکھے۔ یہ مولوی صاحبان گالیاں بھی نکالتے ہیں۔
وزیر داخلہ احسن اقبال ہیں۔ مہذب آدمی ہیں۔ مخلص آدمی ہیں۔ تحمل اور تدبر سے چل رہے ہیں مگر یہ دونوں کام تقدیر کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
جمعے والے دن سارا دن دھرنا چلتا رہا۔ دھرنا دیا جاتا ہے تو یہ کس طرح کا دھرنا ہے۔ آج لاہور کو کیا ہوا۔ سارا شہر خالی خالی سا ہو گیا ہے۔ نجانے آج آسیہ اکبر ایڈووکیٹ کا پنجابی سنگت کا اجلاس ہو گا یا نہیں۔ آسیہ اکبر ایڈووکیٹ کے ساتھ رابطہ ہی نہیں ہو رہا۔
محترمہ انمول نے فون کر کے آج کسی تقریب کی صدارت کے لیے بات کی۔ اس کے بقول میں نے وعدہ کر رکھا ہے اور مجھے کچھ معلوم نہیں میرے قبیلے کے سردار شاعراعظم منیر خان نیازی کا ایک شعر یاد آ گیا۔ مکمل طور پر اس صورتحال پر پورا نہیں اترتا مگر شاید؟
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
دھرنا تو پنڈی اور اسلام آباد کی سرحد پر فیض آباد میں ہے۔ اس طرح ویرانی اداسی شہر لاہور پر چھا گئی ہے۔ معلوم نہیں قذافی سٹیڈیم کا کیا حال ہے۔ وہاں کرکٹ میچ ہو رہا ہو تو باقی سب سرگرمیوں کے لیے قذافی سٹیڈیم بند کر دیا جاتا ہے۔ پنجابی سنگت کا ہفتہ وار اجلاس ہفتے والے دن ہوتا ہے۔ آج ہفتہ ہے اور یہ ہفتہ ہفتے کے بعد آتا ہے۔
اب تو دھرنوں کا رواج ہو گیا ہے۔ پنڈی اسلام آباد میں بھی ہفتہ وار اجلاس ہوتے ہیں مگر ان کی ابھی بات نہیں بنی۔ اس سے بڑھ کر تو نامور شاعر اور دانشور محمد جلیل عالی کے گھر دوست ادیبوں اور شاعروں کا اکٹھ ہوتا ہے۔ میں ایک دفعہ وہاں موجود تھا۔ مجھے بڑا مزا آیا اور اچھا لگا۔ جب سب چلے گئے اورمیں بیٹھا رہا۔ میری بھابی بہن حسینہ جلیل بھی آ کے بیٹھی رہی۔ بڑی دیر بعد ایک گھریلو خوشبو پورے ماحول میں پھیل گئی۔
جلیل عالی کبھی کبھی مگر باقاعدگی سے یہ محفلیں اپنے گھر میں کرتے رہتے ہیں۔ میں نے اتنی صلاحیت اور استقامت والا آدمی کم کم دیکھا ہے۔ جتنا نظریاتی وقار اور اعتبار عالی جی کے خیالات میں دیکھا ہے میں سرشار ہو گیا ہوں۔ ہم دوستوں کو عزت دیتے ہیں تو کہتے ہیں جناب منیر نیازی جناب احمد ندیم قاسمی مگر جلیل عالی کے لیے کہیں گے جناب عالی۔
اک معرکے کی بو ہے فضا میں بسی ہوئی
ہے کون کس کے ساتھ کسی کو پتہ نہیں
بے نیازیاں