مجھے وزیر آباد سے محمد یوسف جنجوعہ نے خط لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے عزت مآب جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی زبان کے حوالے سے ایک کیس کے لئے ریمارکس دیے کہ مجھے ان مجرموں کے نام بتائے جائیں جو قومی زبان اردو کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بنے ہیں۔ وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ اگر تمہارے پاس جواب نہیں ہے تو کیا میں آئندہ پیشی پر وزیراعظم پاکستان کو طلب کر لوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قانون انگریزی میں ہے تو عام لوگوں کو کیا پتہ چلے گا۔ سارا قانون فوراً اردو میں منتقل کیا جائے۔ جسٹس صاحب نے اس سلسلے میں کام کی نگرانی شروع کر دی۔ حیرت ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ اب عدالتی فیصلے اردو زبان میں لکھتے ہیں جو فیصلہ انگریزی میں لکھا جاتا ہے وہ اردو میں زیادہ آسانی اور وضاحت سے لکھا جا سکتا ہے۔ جو سمری اور نوٹ ہمارے بیورو کریٹ اور دوسرے ملازم انگریزی میں تیار کرتے ہیں وہ اردو میں تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس غلامی کی یادگار کو کیوں تازہ رکھا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہی ہیں۔
میری ملاقات معروف آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر پروفیسر خالد وحید کے گھر جسٹس خواجہ صاحب سے ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خالد وحید آرٹسٹ آدمی ہیں۔ وہ ہر سال اپنے گھر پر پھولوں کی نمائش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں انمول پھولوں کا ایک ذخیرہ ہے۔ نایاب پھولوں کی خوشبو چاروں طرف پھیلتی اور فضا کو معطر رکھتی ہے۔ اس ماحول میں قومی زبان کی بات بھی ہوئی۔ ڈاکٹر خالد وحید کے لئے اطلاعاً عرض ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے حیدر آباد یونیورسٹی انڈیا میں ایم بی بی ایس کا سارا میڈیکل کورس اردو میں پڑھایا جاتا تھا۔ فاطمہ قمر نے مسلسل جسٹس صاحب سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ جسٹس صاحب نے بھی بڑی محبت سے فاطمہ قمر کا ذکر کیا۔ کئی دوستوں کے کالموں کی خبر فاطمہ قمر کے ایس ایم ایس سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود سعید آسی، فضل اعوان، عزیز ظفر آزاد، منصور آفاق اور دوسرے کئی کالم نگاروں نے اس طرف توجہ دی ہے۔ امید ہے کہ یہ جدوجہد ایک تحریک بن جائے گی۔
جناب آغا غضنفر ایچی سن کالج کے پرنسپل ہیں۔ اور انہوں نے پورا ارادہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس کالج میں اردو نافذ کریں گے۔ یہ کالج انگریزوں کی یادگار ہے۔ اور یہاں امیر کبیر لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں ہیں۔ جو انگریزی پڑھنا چاہتا ہے، شوق سے پڑھے۔ اسے لازمی مضمون کے طور پر نہ پڑھایا جائے۔ لگتا ہے کہ فیل ہونے کے لئے انگریزی ایک لازمی مضمون بنایا ہوا ہے۔ اردو میں بہت معرکے سے سوچنے والے لوگ اور دانشور بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
قومی زبان کے حوالے سے بڑی جدوجہد ہوئی ہے۔ کئی لوگ سامنے آئے مگر بات نہ بنی۔ کہنے کو ہماری قومی زبان اردو ہے مگر بظاہر بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ اردو بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اس ملک کو اپنی زبان نہیں مل سکی۔
اب جو تحریک قومی زبان کے حوالے سے چلی ہے تو لگتا ہے کہ وہ ضرور کامیاب ہو گی۔ یہ لوگ کبھی تھکیں گے نہیں۔ عزیز ظفر آزاد، فاطمہ قمر، پروفیسر رضوان اختر اور کئی دوسرے خواتین و حضرات اس لگن میں مگن ہیں کہ وہ اردو زبان کو قومی زبان بنا کے رہیں گے۔ قومی زبان تو اردو اب بھی ہے مگر سرکاری زبان دفتری زبان تدریسی زبان اور عوامی زبان نہیں بن سکی۔
صرف وہ میسجز (sms) اکٹھے کر لئے جائیں تو پوری ایک کتاب بن جائے گی جو اس حوالے سے فاطمہ قمر نے ہزاروں لوگوں کو کئے ہیں بلکہ وہ ہر روز کرتی ہیں۔ قومی زبان نے کئی تقریبات کیں۔ سیمینار ہوئے۔ لوگ اکٹھے ہوئے۔ بات آگے بڑھی ہے۔ 1973ءکے آئین میں لکھا ہے کہ 15 اگست 1988 تک 15 سال میں اردو زبان عملی صورت میں قومی زبان بن جائے گی مگر 2015ءآ گیا اور اردو زبان صرف عام لوگوں غریب لوگوں کی زبان رہی۔ اس قوم کے سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں۔ حکمران بنتے ہیں تو انگریزی نہ بھی آتی ہو انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ تیسری بار وزیراعظم بننے والے حکمران نواز شریف اردو میڈیم ہیں۔ انہوں نے ذاتی طور پر صرف اتنی ترقی کی ہے کہ اب انگریزی بول لیتے ہیں۔ صاف اور صحیح انگریزی۔ بیرون ملک سے کوئی حکمران آئے۔ وہ اپنی زبان میں بات کرتا ہے مگر ہمارے حکمران انگریزی میں بات کرتے ہیں حتیٰ کہ چینی ترکی عربی میں کی گئی تقریر کا ترجمہ بھی انگریزی میں کیا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے چینی میں تقریر کی جبکہ نواز شریف اور خورشید شاہ نے انگریزی میں تقریر کی۔ شاہ صاحب کو انگریزی بولتے ہوئے بڑی تکلیف ہوئی۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور ان کے لہجے کے اثرات صاف بتا رہے تھے کہ بے چارے بڑی مشکل میں ہیں۔
یہ حکمران طبقہ یہ تاثر بھی پھیلاتا ہے کہ مجھے اردو نہیں آتی جبکہ وہ اردو میں تقریر بھی کر لیتے ہیں۔ ”صدر“ زرداری نے جب بھی گڑھی خدا بخش میں تقریر کی اردو میں کی۔ بلاول نے بھی کراچی میں اردو میں بات کی۔ کبھی انگریزی تقریر کے دوران نہ تالیاں بجتی ہیں اور نہ نعرے لگتے ہیں۔ جلسے میں 99 فیصد لوگ انگریزی کی سمجھ نہیں رکھتے۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ پارلیمنٹ میں بھی 50فیصد سے زیادہ خواتین و حضرات انگریزی نہیں سمجھتے۔ ان کے لئے چینی زبان اور انگریزی زبان ایک جیسی ہیں۔ وہ چینی زبان سے زیادہ محبت رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست کی زبان ہے۔ بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان انگریزی بھی خوب جانتے ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ مگر ہمیں شرم نہیں آتی کہ ہم اپنی قومی زبان کو نظرانداز کرتے ہیں اور انگریزی بولتے ہیں۔ اب تک انگریزی بولنے پر اتنی تنقید کی گئی۔ مذاق اڑایا گیا مگر ڈھٹائی کی حد ہے کہ غلط انگریزی کے لئے بھی فخر کرتے ہیں۔
ایک دفعہ نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر امریکہ میں غلط انگریزی بولنے کے لئے بہت تنقید کی گئی۔ لطیفے بنائے گئے تو میں نے ان سے کہا کہ اب آپ عہد کریں کہ کبھی انگریزی نہیں بولیں گے۔ انہوں کہا کہ میں کیا کروں کہ مجھے اردو بھی اچھی طرح بولنا نہیں آتی۔ یہ ہمارے ”وزیراعظموں“ اور حکمرانوں کا حال ہے؟
ہماری بیورو کریسی تو اصل اور مستقل حکمران ہے۔ انہوں نے انگریزی کی وجہ سے اپنی نالائقی اور بالادستی کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اس احساس برتری سے سیاستدانوں، حکمرانوں میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں جبکہ احساس برتری بھی احساس کمتری کی ایک شکل ہے۔ انگریزی کی وجہ سے عام لوگوں تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے صرف کارروائی ڈالنے کے لئے مقتدرہ قومی زبان بنائی کہ اس طرح دفتری اصطلاحات کا ترجمہ اردو میں ہو گا۔ یہ دفتر قائم ہے۔ مقتدرہ کی چیئرمینی بھی ایک ایسا عہدہ ہے جو دوستوں کو نوازنے کے لئے ہوتا ہے۔ اردو زبان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ بیورو کریسی ہے جسے میں ”برا کریسی“ کہتا ہوں۔ چنگا نہ کریسی۔ برا کریسی۔ سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ قومی زبان کو حقیر بنا کے رکھ دیا گیا۔
ایک یہ بھی تاثر ہے کہ جس کو انگریزی آتی ہے وہی پڑھا لکھا ہے۔ سکالر اور دانشور کے لئے یہ ایک دھوکے کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ انگلستان میں چند سال کا بچہ بھی فرفر انگریزی بولتا ہے تو کیا وہ عالم فاضل ہے۔ میں سارے ایسے ”عالم فاضل“ لوگوں کی خدمت میں اپنے بھائی عزیز ظفر آزاد کا یہ جملہ عرض کرناچاہتا ہوں۔ ان کے کالم کا جو عنوان بھی ہے۔
2015 نفاذ اردو کا سال ہے۔