وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے راولپنڈی کے ایک مدرسے کی تقریبِ اسناد سے خطاب کرتے ہُوئے کہا ’’ہم صِرف اپنے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے بچّوں کو بھی محفوظ پاکستان دینا چاہتے ہیں ‘‘۔ لیکن راولپنڈی سے دُور بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں دہشت گردوں نے پرویز رشید صاحب کے پیغام امن و آشتی پر یقین نہیں کِیا۔
’’صدرِ مملکت کا بیٹا محفوظ رہا!‘‘
خبر کے مطابق دہشت گردوں نے صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کے بیٹے سلمان حسین کے قافلے پر بم حملہ کردِیا۔ 3 افراد جاں بحق اور 15 زخمی ہوگئے جِن میں 5 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ 5 گاڑیاں تباہ ہوگئیں‘‘۔ خبر کے مطابق سلمان حسین (قافلہ سالار) محفوظ رہے۔ بقول شاعر؎
’’پردیسیئوں کا قافلہ سالار بچ گیا‘‘
اُدھر لاہور میں پاکستان اور زمبابوے میں پُرامن کرکٹ میچ پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کِیا جا رہا تھا اور حب میں صدر پاکستان کے بیٹے کے قافلے پر حملہ؟۔ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد اہم شخصیات اور اُن کے اہل خانہ کو بھی نہیں بخشتے۔ قافلہ سالار کی حفاظت کرتے ہُوئے جو لوگ جاں بحق ہُوئے اُن کے لواحقین کو معاوضہ مِل جائے گا اور زخمیوں کو بھی ۔ اہم شخصیات کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو پہلے ہی بتا دِیا جاتا ہے کہ ؎
’’یہ شہادت گہہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے‘‘
بلوچستان لبریشن آرمی نے ’’قافلۂ سلمان حسین‘‘ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے لیکن فی الحال یہ معلوم نہیں کِیا جا سکا کہ سلمان حسین کا قافلہ نکالنے کا مقصد کیا تھا؟
علی حیدر گیلانی کے لئے ’’ اجتماعی دُعا؟‘‘
دو سال قبل 2013ء کی انتخابی مہم کے دَوران اغواء کئے گئے سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سیّد علی حیدر گیلانی کی افغانستان کے کسی شہر سے اپنے والد، والدہ، بیوی اور دوسرے رشتے داروں سے موبائل فون پر بات ہوگئی۔ سیّد یوسف رضا گیلانی نے خبر کا خلاصہ یہ بتایا کہ ’’اغواء کندگان نے علی حیدر گیلانی کی رہائی کے بدلے میں دہشت گرد تنظیم ’’القاعدہ کی خواتین اور بچوں کی رہائی‘‘ کا مطالبہ کِیا ہے‘‘۔ خبر یہ بھی ہے کہ ’’سیّد یوسف رضا گیلانی اِس معاملے پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دوسرے اعلیٰ حکام سے بات چیت کے لئے اسلام آباد روانہ ہوگئے‘‘۔ فیصلہ جنرل راحیل شریف کریں گے (خود یا وزیرِ اعظم نوازشریف سے مشورہ کر کے؟) القاعدہ کی خواتین اور اُن کے بچوں کی رہائی سے پاکستان کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوگا؟ یہ اربابِ اختیار ہی جانتے ہوں گے۔
ستمبر 2013ء کے تیسرے ہفتے میں جب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی جناب عرفان اُلحق صدیقی نے وزیراعظم نواز شریف کو ’’محب وطن طالبان‘‘ سے مذاکرات پر آمادہ کرلِیا تھا تو مسلسل تین چار روز تک مختلف نیوز چینلوں پر مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق رُکن قومی اسمبلی جناب جاوید ابراہیم پراچہ اپنی گفتگو اور انکشافات کے حوالے سے چھائے رہے۔ پراچہ صاحب طالبان کے ’’ امیرالمومنین‘‘ مُلّا عمر سے اپنے قریبی تعلق کی وجہ سے خاص اہمیت اختیار کرگئے تھے۔ پھر اِس طرح کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں کہ ’’ وفاقی وزارتِ داخلہ اور طالبان کے نمائندوں میںمختلف جیلوں میں قید طالبان کی فہرستوں پر تبادلہ خیال ہو رہا ہے کہ جیلوں سے کِن کِن ملزموں کو ضمانت پر رہا کر دِیا جائے اور کِن کِن کو اپیلیں کرنے کے بعد ؟‘‘ ان دنوں 4 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کی خبریں بھی شائع ہوئی تھیں‘‘ لیکن طالبان دوسرے دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کی وعدہ خلافیوں کے بعد پاک فوج کو اُن کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔
اگر سیّد علی حیدر گیلانی پاک فوج کا افسر یا سپاہی ہوتا اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران گرفتار ہو جاتا تو پوری قوم کی ہمدریاں اُس کے اور اُس کے خاندان کے ساتھ ہوتیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ نے سیّد یوسف رضا گیلانی سے اظہار یک جہتی کرتے ہُوئے سیّد حیدر علی گیلانی کی رہائی کے لئے دُعا کردی ہے حالانکہ جنابِ یوسف رضا گیلانی خود پِیر اور گدّی نشِین ہیں۔ جِن دنوں سپریم کورٹ میں گیلانی صاحب کے خلاف نا اہلی کا کیس چل رہا تھا، جناب گیلانی کہا کرتے تھے کہ ’’ اگر مَیں وزیراعظم نہ بھی رہا تو گدّی نشین تو رہوں گا‘‘ درست ہے۔گدّی نشِین سیّد یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے دعائیں تو ضرور کی ہونگیں لیکن دُعائوں کی قبولیت کا بھی ایک وقت ہوتا ہے ۔ مناسب یہی ہے کہ جناب یوسف رضا گیلانی دوسرے پِیر صاحبان کے ساتھ مل کر اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے اجتماعی دُعا کا بندوبست کریں ۔‘‘
جناب سراج اُلحق کی سادگی؟
علامہ اقبالؒ نے نہ جانے کِس موڈ میں کہا تھا کہ …
’’ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘
امیر جماعت اسلامی جناب سراج اُلحق کو پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد سے ’’عشق‘‘ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی تقریروں میں ڈھلی ہوئی خواہشات کے مطابق بذریعہ’’ انقلاب‘‘ یا انقلاب لائے بغیر پاکستان کی لنگڑی لُولی جمہوریت اسلامی ریاست کا رُوپ دھار لے۔ گجرات کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے جناب سراج اُلحق نے کہا کہ ’’ قوم کو انصاف کی فراہمی کے لئے شرعی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ عدالتی نظام میں انصاف کا دروازہ لاکھوں میں کھلتا ہے‘‘ سراج اُلحق صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ آج تک کسی بھی چیف جسٹس نے قرآنِ پاک کو سامنے رکھ کر فیصلے نہیں کئے‘‘۔
یہ بات تو جنابِ سراج اُلحق کے عِلم میں یقیناً ہوگی کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء اُلحق نے 1980 میں ہی "Federal Shariat Court" قائم کردی تھی۔ 35 سال گُزرنے کے بعد بھی ماشاء اللہ فیڈرل شریعت کورٹ قائم ہے۔ اُس کے ایک باقاعدہ چیف جسٹس بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ قرآن پاک کو سامنے رکھ کے شرعی فیصلے بھی کرتے ہوں گے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جنرل ضیاء اُلحق اور اُن کے بعد اقتدار میں آنے والے کسی بھی فوجی/ جمہوری لیڈر کو یہ خیال نہیں آیا کہ ’’ قوم کو انصاف کی فراہمی کے لئے صوبوں، اضلاع اور تحصیلوں میں بھی شرعی عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہے؟‘‘ جماعتِ اسلامی سمیت کسی بھی مذہبی جماعت نے ہر سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کے لئے کوئی تحریک بھی نہیں چلائی گئی اگر کسی موقع پر مذہبی جماعتوں کو بھاری مینڈیٹ مِل جاتا اور ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پرمنتخب ہونے والی پارلیمنٹ میں پورے مُلک میں ہر سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہو جاتا تو کیا ہی بات تھی؟
اپریل 2007ء میں اسلام آباد کی لال مسجد کے ملازم خطیب مولوی عبدالعزیز نے ’’امیر اُلمومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے پورے مُلک میں شرعی عدالتیں قائم کر دی تھیں۔ لیکن قوم نے تسلیم نہیں کِیا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی طرف سے من مانی شریعت نافذ کرنے پر پاک فوج اُن کے خلاف آپریشن کر رہی ہے۔ امام کعبہ الشیخ ڈاکٹر خالد الغامدی اپنے ایک فتوے میں ’’طالبان اور داعش‘‘ کے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر چکے ہیں۔ اب ’’جناب سراج اُلحق کی سادگی‘‘ ہی قوم کی راہنمائی کرے کہ پاکستان میں شرعی عدالتیں کیسے قائم کی جائیں؟ اور ہاں اِس بات پر بھی غور کِیا جائے کہ جس قوم میں 60 فیصد لوگ غُربت کی لکِیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں کیا شرعی عدالتیں اُن کو بھی انصاف دے سکیں گی؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38