اگلے الیکشن میں ہم پنجاب بھی لیں گے۔۔۔۔ یہ فرمایا ہے سابق صدر آصف علی زرداری نے۔۔۔۔ اور نواب ابن نواب آصف علی زرداری کے منہ سے یہ کلمہ سن کر یہ محاورہ یاد آگیا ”یہ منہ اور مسور کی دال“۔۔۔ ویسے یہ محاورہ بنایا کس نے تھا؟ مغلیہ حکومت کی آخری سانسیں تھیں۔ بادشاہ وقت کا خزانہ خالی تھا اور سلطنت فقط نام کی ہی رہ گئی تھی۔ شاہی باورچی بھی اِدبار کا شکار ہو کر قسمت آزمانے شہر سے باہر چلا گیا اور ایک راجہ صاحب کے دربار میں جا کر ملازمت کا خواستگار ہوا۔ جب راجہ صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ شخص شاہی باورچی رہ چکا ہے تو امتحان کی غرض سے اس کو مسور کی دا ل پکانے کو کہا۔ ساتھ ہی وزیر خزانہ کو حکم دیا کہ باورچی اخراجات کے لئے جتنی رقم مانگے اس کو فراہم کر دی جائے۔ شام کو جب راجہ صاحب کے سامنے مسور کی دا ل آئی تو وہ اتنی لذیذ تھی کہ راجہ صاحب تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔ یک لخت ان کو یاد آیا کہ باورچی کبھی شاہان مغلیہ کی خدمت میں رہ چکا تھا۔ گھبرا کر پوچھا کہ ”اس دال پر کتنے روپے خرچ ہوئے ہیں؟“۔ باورچی نے دست بستہ عرض کی ”حضور! دو پیسے کی دال تھی اور بتیس روپے کے مصالحے“۔ راجہ صاحب کے چھکے چھوٹ گئے۔ فرمایا ”دو پیسے کی دال میں بتیس روپے کے مصالحے؟ بھلا ایسے کیسے کام چلے گا؟“۔ باورچی نے شاہی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اس نے کب ایسی بات سنی تھی۔ اسی وقت جیب سے بتیس روپے اور دو پیسے نکال کر راجہ صاحب کے سامنے رکھے دیئے اور یہ کہہ کر چل دیا کہ ”صاحب یہ رہے آپ کے پیسے۔ یہ منہ اور مسور کی دال!“۔ یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص ایسی فرمائش کرے جس کا خرچ اٹھانے کی اجازت اس کی کنجوسی نہ دے یا وہ اس نعمت کے قابل نہ ہو۔۔۔۔ جو مال مفت سے صرف اپنا ذاتی خزانہ بھرے اور سندھ کی رعایا دو بوند پانی کو ترسے، وہ پنجاب بھی لینا چاہتا ہے؟ سندھ کی صوبائی حکومت اس ملک کی امیر ترین، کرپٹ ترین اور فارغ ترین حکومت چلی آرہی ہے۔ سندھ کی حالت زار کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کو گھسنے کی اجازت مل جائے اسے غنیمت سمجھے۔ آصف زرداری نے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ عشائیہ میں مونس الٰہی اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما بھی شریک ہوئے، بلاول ہاﺅس میں عشائیہ کے بعد ملاقات میں سیاسی حالات، پانامہ کیس اور آئندہ انتخابات کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آصف زردای نے چودھری برادران کو آئندہ الیکشن میں ن لیگ کے خلاف سیاسی اتحاد کی دعوت دی جس پر شجاعت اور پرویز الٰہی نے پارٹی رہنماﺅں سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا۔ عمران خان کو شاید ظہرانہ دیا جائے گا۔ طاہرالقادری کو ناشتہ اور شیخ رشید کی سٹپنی جماعت کو سگار کا ڈبہ بہت ہے۔ اتحاد بن جائے گا اور پھر میاں شہباز شریف سے ان کا خاندانی ورثہ پنجاب چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔ پنجاب خادم اعلیٰ کی خدمات سے اتنا بھی ناراض نہیں کہ آسانی سے ہاتھ سے نکل جائے۔ البتہ عمران خان کا پاناما کیس کچھ بھی رنگ دکھا سکتا ہے۔ عمران خان بھتیجے بلاول سے بنا کر رکھتے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ برے وقت میں گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق مذہبی وزیر اپنے لیڈر کی بغل میں فاتحانہ انداز میں بیٹھ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے حق میں فیصلہ سے عدلیہ کو آزاد سمجھا جائے؟ آصف زرداری کو اپنے سابق وزیر کی رہائی کو آڑ بنا کر حکومت اور سابق جسٹس افتخار چودھری پر بہتان لگانے کا موقع مل گیا ہے۔ مسلم لیگی وزیر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے 10 سال سندھ میں حکومت کی مگر وہاں کے عوام کو سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملا کیونکہ صوبے کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ لوٹ مار کے نِت نئے طریقے ایجاد کرنا آصف زرداری کا طرہ امتیاز ہے۔ آصف علی زرداری نے ملتان میں حامد سعید کاظمی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور وزیراعظم پر کمیشن لینے کا الزام بھی عائد کیا تھا اور سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو بھی خوب برا بھلا کہا۔ اس پر ردعمل میں سابق چیف جسٹس نے کہا کہ آصف زرداری کو این آر اوکالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کا دکھ ہے۔ آصف زرداری کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم کا بھی دکھ ہے۔ زرداری کو اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا شوق ہے۔۔۔ اس حمام مہربانی میں سب ننگے ہےں۔ ایک دوسرے کے گندے ہیں۔ البتہ آصف زرداری کی پنجاب لینے کی آرزو مضحکہ خیز معلوم ہوئی تو کالم کے لئے کمپیوٹر پر خود بخود انگلیاں چلنے لگیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38