تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
بے نام اداسیاں ، گمنام اداسیاں ، بے سبب اداسیاں ، بے سود اداسیاں…اقبال نے اداسی میں کہا تھا
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
حساس لوگ بے وجہ اداس رہنے لگتے ہیں۔ ان کی سوچ اور مزاج زمانے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اداسیوں کا سامنا کرنے کے لئے ہمت چاہیے۔ماہر نفسیات بے سبب اداسیوں کو ڈیپریشن سے منسوب کرتے ہیں جبکہ بے سبب اداسیوں کو ہجر و فراق سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ محبوب مجازی سے محبوب حقیقی کا سفر قلب سے ہو کر گزرتا ہے۔ اداسی قلبی کیفیت کا نام ہے۔محسوسات جب انتہا کو چھو جائیں تو انسان اداسیوں کے سمندر میں ہچکولے کھانے لگتا ہے اور اس وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں خوشی اور غم اس کے لئے بے معنی ہو جاتے ہیں۔شو بز اور سیاست کی دنیا کے لوگوں میں اداسیاں زیادہ پائی جاتی جبکہ تخلیقی افراد کی اداسیاں انہیں خالق کے قریب کر دیتی ہیں۔آجکل حکمران طبقہ میں اقتدار چھن جانے کے دھڑکے کی اداسی عروج پر ہے۔پرانے ساتھیوں کے بچھڑ جانے کا اندیشہ مزید اداس کر دیتا ہے۔میاں شہباز شریف بھائی ہونے کے سبب جذبات قابو میں رکھنے پر مجبور ہیں لیکن چودھری نثار کو ایسی کوئی مجبوری نہیں۔میاں نواز شریف سے اختلاف رائے وہی کر سکتا ہے جو خوشامد سے الرجک ہو۔ افواہیں گرم ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے روٹھے ہوئے چوہدری نثار علی خان کو منانے کے لیے انہیں پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں کے پیش نظر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے یہ پیشکش چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خود کی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ پانامہ کیس میں نواز شریف کے نا اہل قرار دئے جانے کی صورت میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو ایم این اے منتخب کروا کے انہیں وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ ایسے میں وزارت اعلیٰ کے لیے چوہدری نثار علی خان کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس کرنا تھی لیکن ذرائع کے مطابق انہوں نے پریس کانفرنس بیگم کلثوم نواز اور شہباز شریف کے منع کرنے پر ملتوی کی۔ گو کہ کمر درد کا عارضہ بھی طبی حقیقت ہے البتہ لاہور میں حالیہ دہشت گردی کے واقعہ نے وزیر داخلہ کو پریس کانفرنس پر مجبور کر دیا۔ دہشت گردیوں کا شکار ملک میں اداسیاں مستقل ڈیرے ڈال چکی ہیں۔ لاہور فیروز پور روڈ پردھماکے کے نتیجے میں اب تک 28 افراد شہید جبکہ 50سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ دھماکے سے چند قدم کے فاصلے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت اجلاس بھی جاری تھا۔ ناجانے اس ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ کوئی لیڈر کوئی قیادت ایسی دکھائی نہیں دیتی جو اس ملک کے اندھیروں کو مٹا سکے۔ تاریک راتوں میں امید کے چراغ جلا سکے۔اداسیوں کا موسم مایوسیاں لے کر آتا ہے۔ سیاست کا موضوع بجز اداسی و مایوسی کے کچھ نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی خوش ہونے والی ایسی کوئی بات نہیں کہ زندگی کی حقیقت کا نام موت ہے۔ ایک انتہائی اداس کر دینے والی حقیقت۔پھر خوش کس بات پر ہوا جائے۔ موت کے بعد بھی سوال ہی سوال ہیں۔ اچھے لوگ وہی ہیں جو اداس لوگوں کو عارضی مسکراہٹ سکھا سکیں ۔ جیسے کینسر کامریض ہنسنا سیکھ جائے۔ ہماری دوست نیلما درانی کے یہ چند اشعار ہمیں اکثراداس کر دیتے ہیں۔
اْداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے خزاں میں پتے اْگانے والا
گلْوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی دکھائے محبتوں کے سراب مجھکو
میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے نئی رْتوں کا پیام لے کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے
کوئی پیامبر کوئی امام ِزماں ہی آئے
اسیر ِذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے