حضرت مولانا بہاﺅالحق قاسمی کا پوتا یاسر پیرزادہ آج کل سیکولرازم کا بہت بڑا پرچارک ہے۔ وہ بحیثیت کالم نگار کے مجھے پسند ہے۔ اپنی تحریر میں وہ صاحب اسلوب ہے۔ اس کے موضوعات اور طرز اظہار منفرد ہے۔ وہ نوجوان ہے مگر کسی کا اثر اس کے ہاں دکھائی نہیں دیتا۔ راولپنڈی سے فوج کے ترجمان رسالے ”ہلال“ میں بھی اس کی تحریریں باقاعدگی سے دکھائی دیتی ہیں۔ آج کل بہت خوبصورت اور قومی سطح کے اس رسالے ”ہلال“ کا ایڈیٹر یوسف عالمگیرین ہے جو خود ایک اعلیٰ پائے کا مزاح نگار ہے۔ وہ ہلال میں کوئی چیز شائع کرنے سے پہلے اس کے معیار کو ضرور دیکھتا ہے۔ نوائے وقت کی کالم نگار رابعہ رحمان بھی ”ہلال“ میں باقاعدگی سے لکھتی ہے۔ ہلال میں شائع ہونے والی رابعہ رحمان اور یاسر پیرزادہ کی تحریروں کے موضوعات اخبارات کے موضوعات سے مختلف ہوتے ہیں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ شہباز شریف پہلی بار آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ اکیلے میں ملے۔ پہلے ہر ملاقات میں وزیر داخلہ پاکستان چودھری نثار ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ نواز شریف نے اس کا نوٹس بھی لیا تھا اور میڈیا میں بہت چرچا رہا تھا۔ آج کل آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔ ان سے ملاقات بہرحال اہم ہے۔ کچھ دنوں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی ملاقات نہیں ہو رہی تھی۔ دو دن پہلے نواز شریف نے خاص طور پر جنرل راحیل شریف سے ملاقات کر لی۔ آرمی چیف جنرل کیانی کی ملاقات کبھی وزیراعظم گیلانی سے نہ ہوئی تھی۔ ہمیشہ ”صدر“ زرداری سے ہوتی تھی۔ جنرل راحیل شریف کی ملاقات وزیراعظم نواز شریف سے ہوتی ہے کبھی صدر ممنون سے نہیں ہوتی۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ ”صدر“ زرداری پاکستان میں عہد حاضر کا سب سے بڑا سیاستدان ہے؟ یہ بات بھٹو صاحب کے لیے تو بہت خوشی سے اور آسانی سے کہی جا سکتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے مگر اتنی آسانی سے نہیں کہی جا سکتی۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے بھی ابھی نہیں کہی جا سکتی۔ اس کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ بھٹو زرداری دونوں کی نسبت اس کے نام کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ اس میں بھی بلاول کا قائل ہوا ہوں کہ اس نے اپنے شریک چیئرمین اور والد کو مشورہ دیا کہ اب سندھ میں قائم علی شاہ سے جان چھڑا لی جائے اور یہ بھی حیرت ہے کہ ”صدر“ زرداری نے یہ مشورہ مان لیا۔ بیٹی آصفہ اور بختاور نے اچھا کیا ہے کہ سیاست سے الگ تھلگ ہو گئی ہیں۔ اس کے لیے کریڈٹ ”صدر“ زرداری کو دیا جائے یا بلاول بھٹو زرداری کو دیا جائے البتہ مجھے آصفہ بی بی کی طرف سے فلاحی لیجنڈ شخصیت عبدالستار ایدھی کے گھر جانا اچھا لگا۔ میں مریم نواز شریف کی طرف سے بھی ایسی خبر کا منتظر رہا۔
مریم نواز شریف کو بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں لانے کے لیے باتیں ہوتی رہی ہیں مگر عمران خان کے ان دونوں کی قطار میں کھڑے ہونے پر ہنسی آتی ہے۔ وہ عمر میں ”صدر“ زرداری سے تو یقیناً بڑے ہیں۔ نواز شریف سے بھی بڑے نہیں ہوں گے تو ہم عمر تو ضرور ہوں گے۔ انہوں نے نوجوان نسل کو متوجہ ضرور کیا تھا۔ پھر ان کی توجہ شادیوں کی طرف چلی گئی۔ مجھے قندیل بلوچ نہیں بھولتی۔ اس نے بیان دیا تھا کہ میں عمران خان سے ملوں گی۔ اس ملاقات کے بعد کوئی خاص خبر آنے کی بہت توقع تھی۔ اس کے بعد ہی وہ قتل ہوئی۔ مفتی قوی صاحب قندیل بلوچ کے ساتھ نکاح کرنے کے موڈ میں تھے۔ نکاح کرنے اور شادی کرنے میں ہمارے ہاں بڑا فرق ہوتا ہے۔ نکاح ہو بھی جائے تو رخصتی کرنے کے بعد شادی ہوتی ہے۔
آج کل طلال چودھری اور دانیال عزیز خاموش ہیں۔ نجانے کیا ہونے والا ہے۔ نواز شریف کی بیماری کی وجہ سے سیاست کو کاروبار بنانے والوں کے لیے بہت سی افواہیں گردش کر رہی تھیں مگر اب نواز شریف نے پوری طرح جائن کر لیا ہے تو طلال اور دانیال کی آوازیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ البتہ پرویز رشید کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ انہیں وزیر عمرانیات کہلانے کا بہت شوق ہے۔ وہ ایک وفادار اور قابل اعتبار آدمی ہیں بلکہ صحیح معنوں میں وفا حیا والے آدمی ہیں۔ واقعی درویش ہیں۔ انہیں سرکاری درویش کہا جا سکتا ہے۔ کسی طرح کی سکیورٹی اور پروٹوکول کی انہیں ضرورت نہیں ہے۔ انہیں میں یاد کرتا ہوں تو مجھے شیخ رشید کی یاد آ جاتی ہے۔ گورڈن کالج راولپنڈی میں وہ دونوں پڑھتے تھے۔ میں پڑھاتا تھا۔ ٹیچر اور سٹوڈنٹ کا بھی کوئی فاصلہ درمیان میں نہ تھا۔ میری زیادہ دوستی پرویز رشید سے تھی۔ لفظ ”تھی“ پر غور کریں۔ تب پرویز رشید بھٹو صاحب کا دیوانہ تھا۔ ہم بھی دیوانے تھے۔ وہ نواز شریف کے بھی اسی طرح دیوانے ہیں۔ شیخ رشید تب بھی ایسا ہی تھا جیسا اب ہے۔
راولپنڈی میں گورڈن کالج کا وہی مقام تھا جو لاہور میں گورنمنٹ کالج کا ہے۔ میری وابستگی دونوں عظیم اداروں سے رہی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو اب کاروباری زور شور میں ہیں۔ وہاں ایک شخص سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ شاہد مسعود۔ میں نے نوجوانی کے عالم میں ایسا سرمست آدمی کم کم دیکھا ہے۔ وہ کسی شادی میں لاہور آیا تھا۔ غالباً برادرم شعیب بن عزیز کی صاحبزادی کی شادی تھی۔ وہ اور میں لوگوں سے الگ تھلگ دیر تک بیٹھے رہے۔ وہ بات بھی بہت کم کرتا ہے۔ ہمارے درمیان خاموشی دیر تک بولتی رہی اور ہم دونوں سنتے رہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024