جناب سراج اُلحق قاضی حسین احمد (مرحوم) کے بعد جماعت ِاسلامی کے دوسرے پختون امیر ہیں اور قاضی صاحب ہی کی طرح متحرّک لیکن ہر روز خبروں میں رہنے کے معاملے میں شاید وہ جناب عمران خان سے متاثر ہیں۔ یوں تو عمران خان بھی پختون ہیں لیکن ہیں پنجابی پختون۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ’’سرِراہے نویس‘‘ نے جناب سراج اُلحق کے اِس بیان کا نوٹس لِیا ہے جِس میں موصوف نے کہا کہ ’’مَیں نے وزارتِ سے مُستعفی ہونے کے لئے استخارہ کِیا تھا۔‘‘ اُستاد رشکؔ نے جب استخارہ کِیا تو کہا کہ ؎
’’مرضِ عشِق حقیقت میں بُرا ہوتا ہے
استخارہ ہمیں پرہیز میں اچھا آیا‘‘
اقتدار عوام کے قدموں میں؟
اپنے تازہ ترین بیان میں جناب سراج اُلحق فرماتے ہیں کہ ’’مَیں جان ہتھیلی پر لے کر نِکلا ہُوں۔ مَیں سیاسی براہنموں سے اقتدار چُھڑا کر عوام کے قدموں میں ڈال دُوں گا۔‘‘ جان ہتھیلی پر رکھ کر نِکلنا بہادروں کا کام ہے۔ سراج اُلحق صاحب تو ایک جانباز مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اُستاد ناسخؔ نے جان بیچنے والے ایک یوسفِ بازاری کا ذکر کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ؎
’’کام خونریزی ہے اُس یوسفِؔ بازاری کا
جان جو بیچ کرے قصد خریداری کا‘‘
آپ سب نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اِس طرح کے اشتہارات پڑھے ہوں گے کہ ’’محبوب آپ کے قدموں میں‘‘ فلاں عامل کامِل پِیر صاحب سے ملِیں۔‘‘ ممکن ہے کہ جناب سراج اُلحق کو بھی کوئی اِس طرح عامل یا معمول ہاتھ آ گیا ہو کہ وہ جماعتِ اسلامی کے چند ہزار ارکان کی اجتماعی طاقت سے سیاسی براہنموں کے قبضے سے اقتدارکو چُھڑا سکیں لیکن جماعتِ اسلامی کے دوسرے ارکان اپنے امیر کو سیاسی براہمنوں سے چُھڑائے ہوئے اقتدار کو عوام کے قدموں میں کیوں ڈالنے دیںگے؟ بے چارے عوام تو کبھی ’’اقتدار کے طالبان‘‘ ہی نہیں رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت ِاسلامی کے محرومِ اقتدار اکابرین اپنے عوام دوست امیر کے خلاف علمِ بغاوت ہی بلند کر دیں۔
مجھے کئی بار پشاور جانے کا اتفاق ہُوا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہاں کا ’’خان‘‘ اپنے ڈرائیور کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھِلاتا ہے۔ پنجاب کا جاگیر دار یا سرمایہ دار سار ایسا نہیں کرتا۔ عجیب بات ہے کہ جماعت ِاسلامی کے قواعد و ضوابط اِس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ کوئی عام مسلمان اُس کا رُکن بننے کا اہل نہیں ہے۔ جماعت ِاسلامی 26 اگست 1941ء کو قائم ہوئی تھی۔ جماعت کے بانی امیر مولانا مودودی (مرحوم) سمیت اُس وقت کُل 75 صالح اور پابندِ صوم و صلواۃ مسلمان اُس کے ارکان تھے۔ 73 سال بعد اُن کی تعداد تیس ساڑھے تیس ہزار ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کے بعد جناب سراج اُلحق نے بھی یہ نہیں سوچا کہ جب ’’خان‘‘ اپنے پختون ڈرائیور کو اپنے ساتھ بِٹھا کر کھانا کھِلا سکتا ہے تو جماعت ِاسلامی کے دروازے عام مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں کھولے جا سکتے؟ اگر ایسا ہو جائے تو عام لوگ جناب سراج اُلحق سے یہ اُمید نہیں رکھیں گے کہ وہ سیاسی براہنموں سے اقتدار چُھڑا کر اُن کے قدموں میں ڈال دیں بلکہ عوام خُود اپنے ہاتھوں سے اقتدار کا تاج جناب سراج اُلحق کے سر پر سجا دیں گے۔
پسندیدہ ترین مُلک بھارت؟
سیکرٹری وزارتِ خارجہ پاکستان جناب اعزاز چودھری نے لائن آف کنٹرول پر مداخلت کا بھارت کا الزام کو مسترد کر دِیا ہیں اور کہا ہے کہ 25 اگست کو خارجہ سیکرٹریز کی ملاقات سے پاک بھارت امن کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہم جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلہ سمیت تمام مسائل کے حل پر غور کرنے کے لئے جامع مذاکرات شروع کرنے جا رہے ہیں۔ بھارت کو ’’پسندیدہ ترین مُلک‘‘ قرار دینے کے حوالے سے وزارتِ تجارت نے بہت زیادہ کام کِیا ہے۔ دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لئے دونوں مُلک کے تاجروں کو مواقع فراہم کئے جا سکیں گے۔‘‘ یہ اعزاز چودھری صاحب کا اعزاز ہے کہ انہوں نے اپنی مختصر سی بریفنگ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی خاص طرف بھارت کے بارے میں ’’گویا کُوزے میں دریائے محبت‘‘ کو بند کر دِیا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں کشمیر، سیاچِن اور پانی اور دوسرے متنازع مسائل کے بارے میں صدر، وزیرِاعظم، وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر ہزاروں ملاقاتیں ہو چُکی ہیں۔ لیکن بھارت کی وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
یعنی خُوئے بدرا بہانۂ بسیار‘‘ لیکن ہم ہیں کہ ؎
’’مَیں کوُچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا‘‘
کی پالیسی اپنانے ہُوئے ہے۔ ہمارے دبنگ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کی طرف سے قومی اسمبلی کے ایوان میں دہشت گردوں کو ’’محب وطن‘‘ قرار دیئے جانے کے بعد بھی اُن کے خلاف فوجی آپریشن کرنا پڑا تو کشمیر، سیاچِن اور پانی کے مسائل حل کئے بغیر اُسے پاکستان کا ’’پسندیدہ ترین مُلک‘‘ قرار دینے میں ہماری وزارتِ تجارت اور اُس کے ’’مجازی خدا‘‘ جناب خُرم دستگیر اپنی خُدا داد صلاحتیں کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ پاکستان کو دولخت کرانے کے مُجرم کے خلاف کیا ہم نے ایٹم بم اِسی لئے بنایا تھا؟ مرزا غالبؔ نے کہا تھا کہ ؎
’’ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید!
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟‘‘
بازو کے بدلے بازو
گجرات میں ایک زمیندار نے ایک 10 سالہ یتیم بچے کو پیٹر انجن میں پھینک دِیا۔ اُس بچے کا قصور یہ تھا کہ اُس کے مویشی زمیندار کے کھیتوں میں داخل ہو گئے تھے۔ بچے کے دونوں بازو کٹ گئے۔ پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے اُسے گرفتار کر لِیا ہے۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے واقعہ کی تحقیقات کاحُکم دے دِیا ہے۔ ملزم زمیندار کا نام ہے غُلام مصطفی۔ یہ جنابِ محمد مصطفیٰ ؐ کا کیسا غُلام ہے ہے کہ جِس نے اپنے نام کی بھی لاج نہیں رکھی؟ اِس طرح کے ’’غُلامِ بدلگام‘‘ کو سرورِ کائناتؐ تو مُعاف نہیں کریں گے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو اِس طرح کے اختیارات دے دیئے جائیں کہ جب کوئی کسی کے چہرے پر تیزاب پھینکے تو مضروب کو ملزم کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کا موقع دِیا جائے اور جب کوئی کسی کا بازو کاٹے تو اُس کے کسی وارث کو ملزم کا بازوکاٹنے کی اجازت دی جائے۔ جاگیر دار، سرمایہ دار اور دوسرے بالادست طبقے، ڈریں اُس وقت سے جب مظلوم طبقے کے لوگ خُود ہی یہ اختیارات سنبھال لیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024