نوائے وقت کے سابق سپورٹس ایڈیٹر استاد محترم سید سلطان عارف مرحوم سے ان کی زندگی میں پاکستان ہاکی ٹیم کی کارکردگی میں اتار چڑھا¶ پر اکثر بات ہوتی تھی۔ ہاکی شاہ جی کا پسندیدہ کھیل تھا اور ان کی تحریروں کو بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔ وہ ٹیم کی ناکامیوں پر کڑھتے تھے میرا سید سلطان عارف سے یہی مطالبہ ہوتا تھا کہ قومی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ ٹیم کی ناکامیوں پر بھی ان سے تفصیلی بحث ہوتی تھی۔ ایک روز گفتگو جاری تھی شاہ جی نے بڑے دکھی انداز میں کہا‘ اے اینے جوگے ای نے‘ جو مرضی کر لو‘ وڈی جت ایناں دے وس دا روگ نئیں“
یعنی ہمارے کھلاڑی جتنا اچھا کھیل سکتے ہیں‘ وہ کھیلتے ہیں اس بہتر کھیل ان کے بس میں نہیں اور مستقبل قریب میں شاید ہی یہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کر سکیں۔
یہ واضح رہے کہ اس وقت ٹیم میں انفرادی حیثیت میں آج سے زیادہ بہتر کھلاڑی موجود تھے لیکن پاکستان کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ ان دنوں بھی حالات اتنے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ پاکستان کی آئندہ سال ہونے والے عالمی کپ میں شرکت دا¶ پر لگی ہوئی ہے اگر ٹیم اگست میں ہونے والا ایشیا کپ جیتنے میں ناکام رہی تو پاکستان عالمی کپ میں شرکت سے محروم رہے گا۔ ایسا ہوا تو یقینی طور پر یہ بڑی ناکامی ہو گی۔ اس صورتحال میں ٹیم کے کھلاڑیوں کا کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔ دس بارہ برس قبل سید سلطان عارف مرحوم نے کھلاڑیوں کو ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حالات نہیں بدلے ٹیم کے اکثر و بیشتر کھلاڑیوں کی کارکردگی جمود کا شکار ہے۔ برسوں ٹیم کی نمائندگی کرنے والے آج بھی ایک ہی طرح کا کھیل پیش کر رہے ہیں۔ یہ معمول کی ٹریننگ کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ کبھی تخلیقی کام کی طرف نہیں بڑھے‘ احساس ذمہ داری سے عاری ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان پر کام کا بوجھ بڑھایا جائے۔ کھیل کے میدان کی تربیت کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد کھلاڑیوں کے لئے تحریری طور پر اسائنمنٹس دی جانی چاہئیں ہر کھلاڑی کھیل کے دوران ہونے والی غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرے۔ جو چیز بہتر ہو اور جس چیز سے وہ اختلاف رکھتا ہو ٹیم انتظامیہ تک تحریری طور پر اپنی رائے پہنچائے۔ یعنی ہر وہ کام جس کا تعلق کھیل اور کھلاڑی سے ہے۔ اسکا منظم اور بہتر انداز میں ٹیم انتظامیہ سے تبادلہ کیا جانا چاہئے۔ ممکن ہے اس طرح کھلاڑیوں کی سوچ وسیع ہو‘ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ وہ کھیل میں نئی نئی چیزیں کرنے کے بارے میں سوچیں۔ کھیل کے میدان میں کامیابی یا ناکامی میں بہت بڑا حصہ کھلاڑیوں کا ہے۔ ان کی ذمہ داریوں اور کام کا بوجھ بڑھانا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پی ایچ ایف انتظامیہ کی طرف سے سب اچھا ہے‘ انہیں بھی اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ ٹیم کی ناکامیوں میں ان کی ناقص پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے۔
ورلڈ ہاکی لیگ میں قومی ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد فیڈریشن نے کوچ حنیف خان کو فارغ کرکے طاہر زمان کو ذمہ داریاں دی ہیں۔ وہ نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں کھلاڑیوں کی تربیت میں مصروف ہیں۔ طاہر زمان کو پی ایچ ایف میں موجود ایک مضبوط گروپ اچھا کوچ نہیں مانتا‘ یہاں تک کہ ٹیم کے ہیڈ کوچ چودھری اختر رسول بھی ماضی میں ان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ ہیڈ کوچ کے رفیق تو اب بھی ٹیم کے نئے کوچ کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ صورتحال یقیناً پریشان کن ہے۔ ہمارے ساتھی رپورٹر آفتاب احمد تابی نے ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی پر پیشگی تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ٹیم جیت گئی تو پھولوں کے ہار اختر رسول کے حصے میں آئیں گے اور ناکامی ہوئی تو ذمہ داری طاہر زمان پر ڈال دی جائے گی۔
ہاکی فیڈریشن کے صدر دفتر میں بھی ماحول کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ کھیل کی ترقی کے لئے سخت اور ناپسند فیصلے کئے جائیں‘ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم قومی کھیل کو عروج پر لے جانے کے لئے ”انا“ کے خول اور ذاتی مفادات سے باہر آجائیں‘ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دوستوں کو نوازنے کے بجائے باصلاحیت‘ حقیقت پسندانہ اور مثبت سوچ کے حامل افراد کو ذمہ داریاں دی جائیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ گندی سیاست کو کھیل سے نکال باہر کیا جائے؟ ان معاملات میں بہتری کی سب سے بڑی ذمہ داری پاکستان ہاکی فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیداران پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ قومی کھیل کے محافظ اور اس کے فروغ‘ ترقی و عروج کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024