شعر تو بچپن سے یاد ہے مگریہ ایک عجیب بات تھی کہ اس کی تشریح ایک نئے پہلو سے میں نے ایک نوجوان ڈاکٹر متجلی خوشاب کے منہ سے سنی، وہ صحت اور بیماری پر گفتگو کر رہی تھیں، انہوںنے جب محسوس کیا کہ پیچیدہ میڈیکل اصطلاحوں سے حاضرین مجلس کے پلے کچھ نہیں پڑا تو ان کی زبان پر خود بخود یہ شعر آ گیا،ہمارے شاعر بھی کیا خوب تھے کہ فلسفے اورمنطق کی ادق باتیں شعر وں میں سمو دیتے تھے، سائنس دان، کیمیا دان ، ماہرین فلکیات ، ماہرین ارض اور مابعد الطبیعات میں مہارت رکھنے والے بہت بعد میں ان حقائق کا سراغ لگا سکے۔غالب نے یہ بھی کہا تھا کہ قوی مضمحل ہو گئے، اس لئے اب عناصر میں اعتدال نام کی شے باقی نہیں رہی، غالب کوئی زبدت الحکما نہیں تھے، دو سال قبل کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر محمد سرور نے روازنہ مجھے نیشنل ہسپتال کی سیڑھیاںاترتے چڑھتے دیکھا توان سے رہا نہ گیا اور مجھ پر یہ فقرہ چست کر گئے کہ بڑھاپے کا علاج کہیں سے مل جائے تو مجھے بھی ضرور بتانا۔بڑھاپا کوئی بیماری نہیں، ایک کیفیت ہے انسانی جسم کے زوال کی، اس کی ٹوٹ پھوٹ کی۔انسان اس کیفیت سے گھبرا جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا مگر انیس سو اٹھانوے میں مجھے گلاسگو جانے کا اتفاق ہوا، میرے ساتھ میرا بیٹا نعیم الاسلام اور ممتاز صحافی چودھری قدرت اللہ بھی تھے، محمد سرور نے ہمارے دل بہلاوے کے لئے اپنی گاڑی نکالی، بابائے امن مک غلام ربانی کو بھی ساتھ بٹھایا اور پورے اسکاٹ لینڈ کا ایک چکر لگوا دیا،ایک جگہ چائے پانی کے لئے رکے تو وہیں ایک بڑی سی بس سے بوڑھے مرد وز ن اترے اور قہقہے لگاتے ماحول کو انجوئے کرنے لگے، پتہ لگا کہ یہ آسٹریلیا کا ایک ٹورسٹ گروپ تھاا ور اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں شامل ہر شخص پچاسی سے اوپر تھا، میںنے ایسے خوش باش نوجوان زندگی میں اور کہیںنہیں دیکھے۔میںنے نتیجہ نکالا کہ صحت ا ور خوشی کا تعلق عمر سے ہرگز نہیں۔
ڈاکٹر متجلی خوشاب نے میرے اندر اسی جوانی کو آواز دی تھی اور پھر ان کے سینئرز ڈاکٹرآفتاب علی صدیقی،ڈاکٹر نور محمد مہر، طلحہ بلال اور آصف رضا نے بھی حاضرین مجلس کو صحت کے نئے حقائق سے روشناس کیا۔ان کی باتوں کو سمجھنے کے لئے میںنے کسٹمز ہیلتھ کیئر کے سدا بہار ڈاکٹر آصف محمود جاہ اور زیب لیبارٹریز کے فتح اللہ خان کو بھی مدعو کر رکھا تھا، آصف جاہ نے صدارت بھی فرمائی اور ماڈریٹر کے فرائض بھی اد اکئے اور فتح اللہ خان نے بات بے بات مقررین کی بات کاٹی اوراپنا واویلا جاری رکھا۔ لگتا ہے کہ وہ وزارت صحت کے ہاتھوں ستے ہوئے ہیں۔
موضوع زیر بحث یہ تھا کہ جدید میڈیسن انسان کے لئے فوری علاج توسمجھی جاتی ے مگر اس کے مضرا ثرات انسانی زندگی کو اندر ہی اند گھن کی طرح چاٹ لیتے ہیں،بلڈ پریشر، شوگر، جوڑوں کے درد حتی کہ نزلہ زکام کھانسی کے لئے ایلو پیتھک دوائیںہشت پا کی طرح جسم میں اپنے خونیں پنجے گاڑ لیتی ہیں، تو انسان پھر کیا کرے، یہ بہت بڑا سوال ہے جس پر مغربی دنیا بھی غور کر رہی ہے، یونانی طریق علاج جسے اسلامی طب بھی کہا گیا، اسے متبادل طریق علاج کے طور پر اپنانے کے لئے غوروفکر ہو رہا ہے، علاج بالغذا پر بہت زور دیا جارہا ہے،سبزیوں، پھلوں،اور دیگر قدرتی غذاﺅں کے کثرت استعمال کے مشورے بھی دیئے جاتے ہیں اور اس بات کا علم تازہ گفتگو سے ہوا کہ ایک طریق علاج نیوٹرا سوٹیکل بھی ہے، اس میں بھی پھلوں، سبزیوں کے استعمال کے ساتھ ان سے اخذ کی جانے والی ادویات کو روشناس کرایا جا رہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ تو جانتے ہیں کہ پالک میںآئرن کی تعداد وافر مقدار میں موجود ہے لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ آپ کتنی پالک کھائیں گے ا ور آپکی ضرورت کا آئرن آپ کے نظام جسم کا حصہ بن سکے گا، اس مشکل کو حل کرنے کے لئے نیٹرو سوٹیکل شعبے نے غیر ضرر رساں گولیاں یا شربت تیار کئے ہیں۔ان سے یہ خطرہ ٹل جاتا ہے کہ آپ کو ایک فائدہ تو ہو جائے مگر آپ کے گردے، پھیپھڑے یا جگر کا کام تمام ہو جائے۔
آج کئی اور موضوعات تھے، اوبامہ بھارت میں۔ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین میں۔رات بھر ملک کی بجلی بند۔ جس سے پانی بھی بند، پٹرول اور گیس پہلے سے بند۔سعودیہ میں شاہ کی تبدیلی۔ لاہور کے ایک اسکول کے بچوں پر لاہور پولیس کا تشدد، گستاخانہ خاکوںمیں ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں، ملک میں گورننس نایاب مگر کیا کیا جائے کہ صحت پہلے اور کام بعد میں ،اس لئے آ ج ڈاکٹر آفتاب علی صدیقی ا ور ان کے ساتھیوں کے مشورے سنیئے اور ہو سکے تو ان پر عمل بھی کیجیئے، ان کا کہنا ہے کہ اپنا علاج خود کرنے کی عادت ترک کریں، بیماری کی صورت میںڈاکٹر یا مستند حکیم سے مشورہ کریں،پر ہیز علاج سے بہتر ہے کی نصیحت بھی انہوں نے یا ددلائی۔غیر ملکی ادویہ ساز ادارے مافیا بن چکے ہیں، وہ دیسی طریق علاج کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے، ڈاکٹروں کو لالچ دے کر مہنگی ایلو پتھک دوائیں تجویز کرواتے ہیں، یہ لالچ کیا ہے، کانفرنسوں کے پردے میں غیر ملکی سیرو سیاحت، ڈاکٹروںکے بچوں کی بیرونی ملکوں میں پڑھائی کے اخراجات کی کفالت۔ اور لا تعداد کرپشن کے راستے کھلے ہیں۔یہ دوائیں مہنگی ہیں، ان کے مقابلے میں ملکی ادویہ ساز سستی دوائیں بازار میں لاتے ہیں جن پر مقدمے بنوا دیئے جاتے ہیں، فتح اللہ خاں نے کہا کہ ایک دوا کے سلسلے میں ان کی سیکرٹری صحت کے سامنے پیشی تھی، انہوں نے وہاں کہا کہ میٹنگ میںموجود ایک اعلی افسر میری بنائی ہوئی ادویہ استعمال کرتے ہیں،اس شخص نے اعتراف کیا کہ انکی دواﺅں سے افاقہ ہے اور یہ سستی بھی ہیں مگر مقدمے بازی سے جان پھر بھی نہیں چھوٹی، یہ جان تب چھوٹے گی جب ملکی ادویہ ساز اداروں کو کنٹرول کرنے کے لئے ا ور خاص طور پر یونانی اور ہربل ادویات کے لئے کوئی قانون آئے گا، اس قانون کا ایک مسودہ زرداری دور میں بنا، جوابھی تک نافذ نہیںہو سکا، ایلو پیتھی مافیا اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے اور ملکی ادویہ ساز ادارے اس اتحاد سے محروم ہیں جس کی مافیا سے مقابلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس ادارے نے نمونے کی ادویات کے پیکٹ حاضرین کو تحفے میں عنائت کئے، ان میں درد پر لگانے والی مرہم بھی ہے، بھوک بڑھانے والی گولیاں بھی اور طاقت کے کیپسول بھی، ایک خوبصورت نیوز لیٹر بھی ہر سیٹ کے سامنے رکھا گیا، اس میں پھلوں، سبزیوں اور دیگر غذاﺅں کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور تنظیم کی سرگرمیوں کی کلرڈ تصویری رپورٹیں بھی، ایک نوجوان صحافی دوست نے اعتراض کیا کہ آپ کو تو ڈاکٹروں کے پاس جانا چایئےے کہ وہ آپ کی دوائیں مریضوں کے لئے تجویز کریں ،آفتاب صدیقی صاحب نے دھیمے انداز میں جواب دیا، ہم ان سے تو روز رابطہ کر رہے ہیں مگر اب آپ کے پا س اس لےئے آئے ہیں کہ ملکی میڈیا ملکی ادویہ کے فروغ میں عوام کا شعور بیدار کرے۔
میرا خیال ہے کہ اس میٹنگ کا مقصد پورا ہو گیا۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنی مقبول عام تصنیف غذا اور علاج بھی حاضرین کو پڑھنے کے لئے دی۔وہ خود ایلو پپیتھک ڈاکٹر ہیں مگر مریضوں کو لونگ، ادرک، لیموں، پپیتا، دار چینی سے دوستی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ دوستو! اسے کہتے ہیں فطرت کی طرف واپسی۔ اور اگر فطرت کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو انسان کی طرح انسانوں کا ایک گروہ جو کسی ایک ملک یا ریاست میں زندگی بسر کرتا ہے، اس کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی رک سکتا ہے، آج پاکستانی معاشرے کے اجزائے ترکیبی پاگل پن حد تک پریشان ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر متجلی خوشاب نے جو شعر پڑھا اس کا دوسرا مصرع ہے کہ موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہو نا۔
میں انٹر فیتھ ہارمونی کے چیئر مین چودھری ذوالفقار کا شکریہ ادا کرنے میں بخل سے کام نہیں لوں گا جنہوںنے ان ماہرین کو ہم سے ملوانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ زندگی کے ایک نئے، امید افزا اور روشن تر افق کا مشاہدہ ان کا مرہون منت رہے گا۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024