پاکستان اور بھارت علیحدگی سے پہلے’’ ہندوستان‘‘ ہواکرتے تھے۔ ہندوستان کا پنجاب سانجھا ہوا کرتا تھا۔ پھر وقت نے انگڑائی لی اور ہندوستان کا پنجاب بھی تقسیم ہو گیا۔ جغرافیائی تقسیم تو ہو گئی مگر ہندوستان کے پنجاب کی ثقافت تقسیم نہ ہو سکی۔آج بھی جاٹ برادری کا تعلق خواہ سکھوں سے ہے یا مسلمانوں سے ان کی ثقافت نے انہیں قریب کر رکھا ہے۔انسانوں کو قریب لانے میں ثقافت کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ پنجاب کی ثقافت کا اصل حسن اس کے صوفی اور اس کی ’’دھی رانی‘‘ (بیٹی) ہے۔ پنجاب کی’’ دھی‘‘ عصمت اور غیرت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پنجاب کا حسن اس کی بیٹی کی حیاء سے منسوب ہے۔ بابل کے ویہڑے میں اچھلتی کھیلتی دھی رانی ایک روز اچانک لال جوڑے میں ملبوس جب ڈولی میں بیٹھنے لگتی ہے تو باپ اس کے سر پر دست شفقت رکھتا ہوا کہتاہے ’’ دھیے ! ’تو اتنی بڑی ہو گئی اور مجھے خبر بھی نہ ہوسکی ‘ اور ماں دھی رانی کو سینے سے لپٹاتے ہوئے رو دیتی ہے کہ ’ماں صدقے جائے ! میں نے تم پر سختی برتی ہو تو آج مجھے معاف کر دینا‘ اور بھائی اپنے آنسو اپنے حلق میں ہی انڈیل کر منہ پھیر لیتا ہے کہ کہیں بہن اسے کمزور پڑتا دیکھ کر اس کی باہوں میں ڈھیر ہی نہ ہو جائے۔ شرم و حیاء میں پلی بڑھی پنجاب کی یہ دھی رانی ماں باپ اور بھایئوں کی لاج اور لاڈ کو اپنے لال دوپٹے کے پلو میں باندھ کر زور سے گرہ لگا لیتی ہے۔ دھی رانی کی زندگی کا ہر فیصلہ اس کے باپ اور بھائی کرتے ہیں اوروہ ان کا ہر فیصلے پر سر جھکا دیتی ہے۔اس کی رضا اس کے باپ اور بھائی کی مرضی میں پنہاں ہوتی ہے۔ شادی کا ارمان دھی رانی کے حیادار آنچل کے پلو سے اس وقت تک بندھا رہتا ہے جب تک اس کا بھائی اس کے لیئے کوئی مناسب دولہا تلاش نہ کر لے۔ بھائی کا دبدبہ اور باپ کا رعب دھی رانی کی پرورش میں نکھار پیدا کر تا ہے جبکہ ماں پہلے روز سے دھی رانی کو اگلے گھر کی تربیت دینے پر مامور ہو جاتی ہے۔لیکن اس روز ماں کی پلکوں سے آنسو برسات بن کر برسنے لگتے ہیں، جس روز دھی رانی اگلے گھر وداع ہونے لگتی ہے۔اس روزپنجاب کی ماں کو احساس ہوتا ہے کہ اگلے گھر کی تربیت میں وہ بیٹی کو دل بھر کر لاڈ بھی نہ کر سکی کہ مبادہ بگڑ نہ جائے۔ ماں اور بیٹی میں یہ فاصلہ تربیت نے حائل کر رکھا تھا ، یہ وہی فاصلہ ہے جو باپ اور بیٹے کے درمیان بھی برقرار رہا، حتیٰ کہ بیٹا ایک روز خود باپ بن گیا۔ اس روز باپ نے بیٹے کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا ’پتر ! آج تو بھی باپ بن گیا ہے ،اب تمہیں بھی باپ کے جذبات کا ادراک ہو جائے گا‘۔ہندوستان کا پنجاب تقسیم ہو گیا ۔ ہر سو کہرام مچ گیا۔ پنجاب کی دھی رانی نے اپنی عصمت کی خاطر کنویں میں چھلانگ لگا دی، اپنے ہاتھوں سے خنجر اپنے پیٹ میں اتار لیا لیکن پلو سے بندھی عصمت کی گرہ کھولنے کی اجازت نہ دی۔ پنجاب کی دھی رانی لال جوڑا پہننے سے پہلے ہی لہو میں نہلا دی گئی۔ایسی لال آندھی چلی کہ بھارت کی معروف پنجابی شاعرہ امریتا پریتم نے ایک دردناک نوحہ لکھ ڈالا ۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ کِتوں قبراں وِچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھوَل
اک روئی سی دھی پنجاب دی‘ توں لِکھ لِکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں‘ تینوں وارث شاہ نوں کہن
وے درد منداں دے دردیا‘ اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں بِچھیاں‘ تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ‘ دِتی زہر ملا
تے اونہاں پانیاں دھرتوں‘ دِتا پانی لا
اج سبہاں قیدو بن گئے‘ حسن عشق دے چور
اج کِتھوں لیائے لبھ کے‘ وارث شاہ اک ہور
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024