اپنے محدود علم اور کمزور ایمان کی وجہ سے مجھے اکثر معاملات کے بارے میں اپنی رائے کو نئی معلومات یا ازسر نوغور کی وجہ سے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ایک بات پر لیکن میں کئی برسوں سے اب تک قائم ہوں اور وہ یہ کہ لسانی،مسلکی یا محض قوم پرستی کے نام پر بنائی سیاسی جماعتیں مقبول ہوجائیں تو اپنی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے بالآخرفسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے پر مجبور ہوجایا کرتی ہیں۔
شاید پہلے بھی اس کالم میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں کہ 1977ء کے اواخر سے 1978ء کے پہلے تین ماہ کے دوران مجھے مختلف وجوہات کی بنا پر کراچی کے لیاقت آباد،جسے وہاں کے پرانے رہائشی لالوکھیت کہا کرتے ہیں، کے عین مرکز میں رہنا پڑا تھا۔دونوجوانوں نے مل کر وہاں ایک فلیٹ لے رکھا تھا۔ مجھے وہاں بغیر کوئی رقم خر چ کئے،مہمانِ خصوصی کے طورپر رہائش کی عیاشی میسر تھی۔ میں وہاں بیٹھا کئی گھنٹے بی اے پاس کرلینے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے گروہوں سے مباحث میں مصروف رہتا۔
انہی ایام میں مجھے نوجوانوں کے ایسے گروہ بھی ملے جو بہت تلخ انداز میں ان شکایات کا ذکر کرتے جن کے اظہار کے لئے بعدازاں ایم کیو ایم ہمارے سیاسی اُفق پر دھماکے کی صورت اُبھرتی نظر آئی۔جن شکایات اور تحفظات نے اس جماعت کا قیام اور عروج ممکن بنایا ان میں سے کئی بہت جائز بھی تھیں۔ ان میں سے اکثر کا ازالہ آج تک نہیں ہوپایا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ان شکایات کا حل فراہم کرنے کے دعویٰ کے ساتھ بنی متحدہ قومی موومنٹ 1988ء سے 2013ء تک مختلف مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بڑی دھانسو’’اتحادی‘‘ رہی ہے۔
جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں شراکت کے بے تحاشہ مواقع حاصل کرنے کے باوجود ایم کیو ایم اپنی Core Constituencyکو مطمئن نہ کر پائی۔ اس Constituencyکو لیکن اپنے قابو میں رکھنے اور ’’غیروں سے محفوظ ‘‘بنانے کے لئے فسطائی انداز اس جماعت نے وحشیانہ حد تک اپنالئے۔ محض فسطائی طریقوں سے ’’اپنے لوگوں‘‘ پر مکمل کنٹرول برقرار رکھنا مگر ممکن نہیں ہوتا۔ اسے برقرار رکھنا اس وقت مزید دشوار ہوجاتا ہے جب ایسی جماعت کا بانی بیرون ملک بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کا عادی بن جائے۔
ترکی کے فتح اللہ گولن کی فکر کئی حوالوں سے ایم کیو ایم کی بنیادی فکر سے بہت مختلف ہے۔وہ اپنے خیالات کو ’’صوفی ازم‘‘ کی زبان واصطلاحات کے ذریعے پیش کرتا ہے۔اس کی تحریک کا نام مگر ’’خدمت‘‘ ہے جو ایم کیو ایم کی ’’خدمت کمیٹی‘‘سے ملتا جلتا ہے۔ رجب اردوان اور اس کی جماعت کو آج یہ طاقت اور قوت ہرگز میسر نہ ہوتی اگر گولن کی ’’خدمت‘‘تحریک نے کنعان ایورن کے مارشل لاء کے زمانے سے شروع ہوکر کئی برسوں تک انہیں اپنے نیٹ ورک کی بھرپور معاونت فراہم نہ کی ہوتی۔ اقتدار کے کھیل میں ’’سوکنیں‘‘البتہ برداشت نہیںہوتی۔ ’’شریک‘‘ کے معنی ساتھی بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی۔اردوان اور گولن کے مابین اس سوال پر فیصلہ کن معرکہ ہوکر رہنا تھا کہ ’’اصل بادشاہ‘‘ کون ہے۔ حال ہی میں یہ فیصلہ ہوا۔ اردوان یہ مقابلہ جیت گیا۔گولن کی ہار کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بذاتِ خود ترکی میں مقیم نہیں۔ کئی برسوں سے امریکہ میں جلاوطن ہوا بیٹھا ہے۔
اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی پریس کلب کے باہر لگے احتجاجی کیمپ سے لندن میں بیٹھے ہوئے ایم کیو ایم کے بانی نے جو تقریر کی، وہ ہر حوالے سے ایک خودکش حرکت تھی۔ پاکستان کی زمینی حقیقتوں سے جڑے موصوف کے پیروکاروں کے لئے اس تقریر کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی چھتری تلے آکر عافیت تلاش کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی باقی نہ رہا۔
کئی برسوںتک ’’بھائی‘‘ کے اشاروں پر پھنے خان بنے کئی لوگ جب مجبور ہوکر عافیت کے درخواست گزار بن جائیں تو انہیں دھتکارنا نہیں چاہیے۔ نہایت کھلے دل سے بلکہ انہیںیہ موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنی جائز شکایات کے ازالے کے لئے Mainstreamجمہوری عمل کا حصہ بن کر ریاست کے ساتھ سیاسی سودے بازی میں مصروف رہیں۔
ایمان داری کی بات ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے پاس لندن میں کئی برسوں سے مقیم رہ نما کے اس ملک میں مقیم پیروکاروں کو اس ہفتے کے آغاز میں ہوئی تقریر کے بعد ’’کچلنے‘‘ کی بھرپور قوت اور جواز موجود تھا۔ مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس قوت کو استعمال کرنے سے گریز کو ترجیح دی گئی۔اس گریز کو مگر کراچی کی ٹھوس حقیقتوں سے ناآشنا ملک کے کئی شہروں میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت نے ناپسند کیا ہے۔ انٹرنیٹ’’پکڑلو جانے نہ پائیں‘‘جیسے پیغامات سے آگ میں سُرخ ہوئے لوہے کی مانند دہک رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں اپنے تمامتر تحفظات کے باوجود مگر میں ’’پکڑ لو جانے نہ پائیں‘‘ پکارتے ہجوم کا حصہ بننے کو ہرگزتیار نہیں۔
میری تو بلکہ شدید خواہش ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو انتہائی خلوص کے ساتھ یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پاکستان کی حقیقتوں سے جڑے لندن میں کئی برسوں سے مقیم رہ نما کے مقامی پیروکاروں کو اپنے پروں تلے لاکر ایک توانا اور جاندار سیاسی راہ پر چلاسکیں۔ ’’پکڑلو جانے نہ پائیں‘‘کی دہائی مچاتے غول یوں دِکھ رہے ہیں کہ جیسے انہیں لندن میں کئی برسوں سے مقیم رہ نما کی ’’اصل سوچ‘‘ کا علم پیر کے دن ہوا۔ ایسے لوگوں کو خبر ہی نہیں کہ لندن میں کئی برسوں سے مقیم رہ نما پر پہلا سنگین مقدمہ پاکستانی پرچم کو نذرِ آتش کرنے کے الزام کے تحت درج ہوا تھا۔ ان دنوں اسی ملک میں اصل بادشاہت بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر افغانستان کو جہاد کے ذریعے آزاد کروانے والے جنرل ضیاء الحق کی ہوا کرتی تھی۔ لندن میں مقیم رہ نما کی یہ حرکت مگر نظرانداز کردی گئی تھی۔
1989ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی تو ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کا ’’اتحادی‘‘ رہنے کے بجائے اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا۔ اس تحریک کے تین برسوں بعد میں اور سینئر صحافی شاہین صہبائی نے چودھری نثار علی خان سے اسلام آباد کے مارگلہ روڈ پر موجودOGDCکے ایک گیسٹ ہائوس میں طویل ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران چودھری نثار علی خان نے انتہائی تلخ انداز میں یہ انکشاف کرڈالا کہ اس تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے ’’ایم کیو ایم کو Deliverجنرل اسلم بیگ نے کیا تھا‘‘۔
ہم دونوں نے اپنے اخبارات کے لئے ان کا یہ دعویٰ نمایاں انداز میں Quoteکیا تھا۔جنرل اسلم بیگ نے کبھی اس کی تردید نہیں کی۔ ’’پکڑلوجانے نہ پائیں‘‘ کی دہائی مچانے والے شاید یہ حقیقت بھی بھول گئے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے ایم کیو ایم میں گھسے سخت گیروں پر انتہائی مؤثر انداز میں قابو پالیا تھا۔ محترمہ کی اس حکومت کو فارغ کرنے کے لئے مگر ان ہی کے بنائے صدر لغاری نے جب الزامات کی فہرست پڑھی تو ان میں سر فہرست ’’کراچی میں ماورائے قانون ہلاکتیں‘‘ والا الزام تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی ایم کیو ایم سے 2002ء کے بعد جاگی ’’محبت‘‘ کا ذکر میں جمعرات کی صبح شائع ہونے والے کالم میں کرچکا ہوں۔
اپنے جذبات پر خداراقابو پائیں۔ پاکستان کی ناخوش گوار تاریخ میں شاید پہلی بار سیاسی اور عسکری قیادتیں باہم مل کر جوش کے بجائے فراست دکھاتے ہوش سے کام لے رہی ہیں۔’’پکڑلو جانے نہ پائیں‘‘ جیسا شور مچاکر ان کا کام مشکل نہ بنائیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024