کوئٹہ میں بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دئیے گئے عشائیہ میں خطاب کرتے ہُوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے (شاید اُداس/ مایوس ہو کر کہا کہ ’’پاکستان ایک آزاد اور وسائل سے مالا مال مُلک ہے لیکن بد قِسمتی سے اِسے ایسی قیادت نہیں مِلی جو لوگوں کو قوم بنا کر آگے لے جاتی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اربابِ اختیار بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں، مستحکم عدلیہ کے لئے خود احتسابی پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔ مرزا غالبؔ کسی عدالت کے جج نہیں تھے اورنہ ہی جمہوری دَور کے سیاستدان لیکن انہوں نے اپنی ’’ بدقسمتی‘‘ کا تذکرہ کرتے ہُوئے اپنے اور مستقبل کے ’’محروم‘‘ لوگوں کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہا تھا…؎
’’یہ نہ تھی ہماری قِسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا‘‘
زوال یافتہ معاشرے میں بوڑھے اور کمزور بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کو ’’آزادی کی علامت‘‘ تصور کر کے ہندوستان میں آزادی کی جنگ لڑی گئی لیکن ناکام رہی۔ اس کے باوجود مسلسل جدوجہد سے ہندو اور مسلمان قائدین نے اپنے اپنے لوگوں کو الگ الگ قوم بنا دِیا اور اُنہیں انگریزوں کی غلامی سے چھڑا لِیا۔ اِس سے بہت پہلے بہادر شاہ ظفرؔ نے جِلا وطن ہو کر رنگون میں دفن ہونے سے پہلے اپنی بد قِسمتی پر ماتم کرتے ہُوئے کہا تھا…؎
’’کِتنا ہے بد نصیب ظفرؔ، دفن کے لئے
دو گززمین بھی نہ مِلی، کُوئے یار میں‘‘
قائداعظمؒ کی قیادت میں معاشرتی اور معاشی طور پر بٹے ہُوئے مسلمانوں نے ثابت کر دِیا تھا کہ ’’ہم ایک قوم ہیں اور ہندوئوں سے الگ تھلگ‘‘ پھر ہندو اور وہ مسلمان ’’قیادتیں‘‘ ناکام اور رسوا ہوئیں جو ہندوئوں اور مسلمانوں کو ’’ایک قوم‘‘ بنانے کا جھانسا دے رہی تھیں۔ چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کو علم ہوگا کہ قیام پاکستان کے بعد 15 جون 1948ء کو کوئٹہ میں خطاب کرتے ہُوئے قائداعظمؒ نے کہا تھاکہ ’’بلوچستان آزاد اور بہادر انسانوں کی سر زمین ہے، اِس لئے آپ کی نظروں میں قومی آزادی، عزت اور طاقت کے الفاظ کی قدر و قیمت ہونا چاہئیے۔ ہم نہ بلوچ ہیں، نہ پٹھان، نہ سندھی، نہ بنگالی اور نہ پنجابی۔ ہم صِرف پاکستانی ہیں‘‘۔
بلوچوں، پٹھانوں، سندھیوں، بنگالیوں اورپنجابیوں کو ’’ایک قوم‘‘ بنائے رکھنا قائدِاعظمؒ کے بعد ہماری قیادتوں کا فریضہ تھا جو انہوں نے ادا نہیں کِیا۔ انہوں نے ’’جمہور‘‘ پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح حکومت کی۔ قیامِ پاکستان سے 4 سال پہلے قیامِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہُوئے 24 مارچ 1943ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے قائداعظمؒ نے کہا تھا۔ ’’ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دِن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کِیا گیا ہے؟ اگر سرمایہ دار اور زمیندار عقل مند ہیں تو انہیں خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر خُدا اُن کی حالت پر رحم کرے۔ ہم اُن کی کوئی خدمت نہیں کریں گے‘‘ لیکن سرمایہ داروں اور زمینداروں نے ’’عقلمندی‘‘ کا یوںمظاہرہ کِیاکہ پاکستان کی سیاست کو اپنی لونڈی بنا کر اُس کے وسائل پر ہی قبضہ کر لِیا۔
قائدِاعظمؒ پاکستان کو حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے، انہوں نے بار بار وضاحت کی کہ ’’پاکستان میں "Theocracy" (مولویوں کی حکومت) نہیں ہوگی‘‘۔ یہ بات اُس دَور سے لے کر آج کے دَور تک عوام کو سمجھ میں آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہُوئے انہوں نے مذہبی جماعتوں کو بھاری مینڈیٹ نہیں دِیا۔ بعض مذہبی قائدین جمہوریت کو ’’کافرانہ نظام‘‘ بھی کہتے ہیں اور ’’ نظام شریعت کے نفاذ‘‘ اور ’’ خلافتِ راشدہ‘‘ کے قیام کے اعلانات بھی کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ سے لے کر بلدیاتی اداروں کے انتخابات تک ’’جمہوری پارٹیوں‘‘ سے اتحاد بھی کرلیتے ہیں اور حکومت میں آنے کے لئے بھی بے چارے عوام تو میر تقی مِیرؔ کی طرح سادہ ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ …؎
’’ میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہُوئے جِس کے سبب
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘
کیا جناب انور ظہیر جمالی بھی سادہ ہیں؟کہ ارباب اختیار سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اقدامات کی توقع رکھتے ہیں؟ پاکستان کے ارباب اختیار فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان، صدر جنرل محمد ضیاء اُلحق اور صدر جنرل پرویز مشرف کے پاس کون کون سا اختیار نہیں تھا؟ لیکن انہوں نے ’’فلاحی مملکت‘‘ کو نصب اُلعین نہیں بنایا۔ سوشلزم کے ذریعے غریبوں کے حق میں ’’انقلاب‘‘ لانے کے دعویدار جناب ذوالفقار علی بھٹو، سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، صدرِ پاکستان اور وزیراعظم بن کر بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کِیا۔ جنابِ بھٹو کو قُدرت نے سب سے بڑی سزا یہ دِی کہ اُن کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو سے جناب آصف زرداری کی شادی ہُوئی اور محترمہ کے قتل کے بعد وہ اُن کی پارٹی کے پروپرائٹر بھی بن گئے اور اب محروم طبقے کے لوگوں کو یہ آس دِلائی جارہی ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جب پاکستان کے ’’ربّ اختیار‘‘ بن جائیں گے تو وہ گھر گھر ’’من و سلویٰ‘‘ پہنچانے کا بندوبست کردیں گے ‘‘۔
گزشتہ دِنوں وزیراعظم میاں نواز شریف ازبکستان کے دورے پر گئے تو دونوں مُلکوں میں کئی معاہدوں کی نوید سنائی گئی۔ جنابِ وزیراعظم اور اُن کے وفد کے ارکان نے سمر قند میں امام بخاریؒ کے مزار کے مقبرے پر بھی حاضری دی اور فاتحہ پڑھی۔ امام بخاریؒ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے احادیث نبویؐ جمع کرنے میں دُور دراز کا سفر کِیا۔ ایک لمبی مسافت کے بعد وہ ایک ایسے شخص کے پاس گئے جِسے عِلم حدیث ؐمیں بڑی مہارت تھی۔ امام بخاریؒ نے دیکھا کہ وہ شخص ایک خالی تو بڑا (چمڑے کا تھیلا) دِکھا دِکھا کر اپنے بھاگے ہُوئے جانور کو بُلا رہا ہے۔ امام بخاریؒ اُس شخص کو مِلے بغیر اور یہ سوچ کر واپس چلے آئے کہ ’’جو شخص ایک جانور کو دھوکا دے سکتا ہے وہ مجھے دھوکا کِیوں نہیں دے سکتا؟‘‘ اب بھوکے عوام کیا کریں؟ خالی تو بڑا دِکھانے والے حکمرانوں کا کب تک اعتبار کریں؟
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب! عام لوگوں کے پاس جو ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ نہ کرنے/ کر سکنے والے’’اربابِ اختیار‘‘ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ وہ تو ہر حکمران کی طرف سے دکھایا جانے والا تو بڑا دیکھ کر یہی خیال کرتے ہیں کہ اُس میں ’’مَن و سلویٰ‘‘ ہوگا۔ علاّمہ اقبالؒ کی نظم ’’شاعر‘‘ کے دو شعر ہیں…؎
’’محفلِ نظم حکومت، چہرۂ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے، دِیدۂ بِینائے قوم‘‘
عوامی جمہوریہ چِین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ بلند پایہ شاعر بھی تھے اور صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین بھی شاعر ہیں۔ اب کیا کِیاجائے کہ ’’دورِ ممنونیت‘‘ میں ’’محفلِ نظمِ حکومت، چہرۂ زیبائے قوم نہیں ہے اور نہ ہی ’’شاعر ِرنگیں نوا، کو دِیدۂ بینائے قوم‘‘۔ کہا جاسکتا ہے۔ علاّمہ اقبالؒ، دو قومی نظریہ کے علمبردار سرسیّد احمد خان کی تُربت پر حاضر ہُوئے تو اُنہیں وہاں سے پیغام مِلا کہ …؎
’تُو اگر کوئی مدبّر ہے تو سُن میری صدا
ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا
عرضِ مطلب ہے جِھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری، تو کیا پروا تجھے؟‘‘
سرسیّد احمد خان اور علاّمہ اقبالؒ کی رُوحیں بھی سوال کر رہی ہیں کہ ’’اُن کے اور ہمارے پاکستان میں لوگوں کو قوم بنانے والی قیادت کا ظہور کب ہوگا؟‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38