جماعت اسلامی نے مینار پاکستان کا غلط استعمال کرتے ہوئے تین روزہ جلسہ کیا، صرف یہ کہنے کے لئے کہ فوجی آپریشن کا ڈارمہ ختم کیا جائے۔ اس مینار پر بھارتی وزیراعظم واجپائی نے جلسہ کیا، اگلے روز جماعت نے جلسہ گاہ کو دھو کر اسے پوتّر کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی فطرت نہیں بدل سکتی۔ اس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی، قائداعظم کی شخصیت اور ان کے کردار اور ان کے ساتھیوں اور کارکنوں پر اعتراضات کئے۔ بھارت نے فوجی جارحیت کر کے کشمیر پر قبضہ جمایا اور پاکستان نے جہاد کا اعلان کیا تو اور کسی نے نہیں، خود مولانا مودودی نے اس جہاد کے خلاف فتویٰ دیا۔
امریکی استعمار کی دشمنی اور مخالفت سوشلزم اور کیمونزم سے تھی۔ جماعت نے سوشلزم اور کمیونزم کو رگیدنے میں امریکی استعمار کا ساتھ نبھایا۔ سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی جہادی تنظیمیں امریکی چھاتے تلے اس جہاد میں پیش پیش رہیں، جس نے سوویت روس کو شکست فاش سے دوچار کیا اور سوویت روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ جماعت نے اس موقع پر امریکہ کا ساتھ دینے میں کسی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان کو دہشت گردی کا خطرہ درپیش ہوا اور پاک فوج نے اس کے خلاف ضرب عضب کی تیاری کی تو اس آپریشن کو روکنے کے لئے جماعت نے حتی المقدور کوشش کی۔ اس کے پروفیسر ابراہیم نے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا، اس ڈرامے کے اگلے سین میں منور حسن اور سراج الحق پیش پیش نظرآئے۔
لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل کے کمرے سے جو جماعت کے طالب علم رہنمائوں کے تصرف میں تھا، القاعدہ کے آپریٹر پکڑے گئے تو جماعت بپھر بپھر گئی، اس نے پاک فوج کے شہید ہونے والے اہلکاروں اور افسروں کو شہید ماننے سے انکار کر دیا۔ پاک فوج نے جماعت سے معذرت کا مطالبہ کیا تو جماعت کے ایک سینئر لیڈر لیاقت بلوچ نے جماعت کی شوریٰ کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے معذرت سے انکار کر دیا اور اُلٹا وزیراعظم سے شکایت کی کہ فوج کے خلاف سیاست میں حصہ لینے پر کارروائی کی جائے۔ جماعت ا سلامی نے کبھی واضح نہیں کیا کہ اس کا اصل وطن کونسا ہے اور وہ دنیا میں امریکی فوج کے علاوہ بھی کسی فوج کا پاس لحاظ کر سکتی ہے۔
جماعت کے اکابرین جیسے ہی جلسہ گاہ سے نکلے، شہباز شریف کا دسترخوان ان کے لئے سجا ہوا تھا، شہباز شریف کی پارٹی کی تحریک انصاف سے ٹھنی ہوئی ہے، مگر جماعت ایک ڈیڑھ سال سے تحریک انصاف کے ساتھ اقتدار کا جھولا جھول رہی ہے، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) سے بھی محبت کی پینگیں جھول رہی ہے، عمران خاں نے جماعت کی اس دُہری روش سے تنگ آ کر کہا کہ بابا کوئی ایک راستہ ماپو مگر جماعت نے خیبر پی کے کی حکومت میں عالیشان وزارتوں پر قبضہ نہیں چھوڑا اور لاہور آ کر شہباز شریف کا دستر خوان بھی چٹ کر لیا۔
سراج الحق تو منور حسن سے دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ انہوں نے آپریشن ضربِ عضب کو ڈرامہ کہہ دیا اور ان کی زبان میں لکنت نہیںآئی۔ یہ آپریشن حضور نبی اکرمؐ کی اس تلوار سے منسوب ہے جو بدر و اُحد اور خندق اور حنین کے غزوات میں کفار کے کشتوں کے پُشتے لگاتی رہی۔ کاش! سراج الحق اس تلوار کے تقدس کو ہی ملحوظ رکھتے۔ کیا وہ آپریشن ڈرامہ ہے جس نے پاکستان کو دہشتگروں کے بچے کھچے خطرے سے نجات دلا دی ہے اور چین جیسی ہمسایہ دوست طاقت میں دہشت گردی کرنے والے ازبکوں اور تاجکوں کا صفایا بھی کر دیا ہے۔
سراج الحق کو ان کی سرکوبی کا دُکھ ہے۔ ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ امریکی جہاد میں جماعت کے حلیف تھے، منصورہ ان کا ہیڈ کوارٹر تھا، یہیں سے افغان جہاد کو اسلحہ ا ور ڈالروں سے کنٹرول کیا جا رہا تھا اور یہ اسلحہ اور پیسہ امریکی سی آئی اے فراہم کر رہی تھی۔ ان پرانے ساتھیوں کو سراج الحق کیسے فراموش کر سکتے ہیں، ان کے مفادات کوکیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ یہ وہ جہاد تھا جس نے پاکستان کو کلاشنکوف اور ہیروئن کی لعنت کا تحفہ دیا اور فرقہ واریت کے جہنم میں دھکیلا۔
جماعت کی طرف سے امریکہ کو بھی خبردارکیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ ٹھیک کہا، مگر یہ خیال شریف کیسے آیا، امریکہ کو جماعت نے اپنا دشمن کب سے سمجھ لیا اور کیوں سمجھ لیا، عوام کو اس راز سے باخبر بھی تو کیا جائے۔ اور وزیری مہاجرین کا غم بھی جماعت کو ستا رہا ہے، سراج الحق نے حکم جاری کیا ہے کہ انہیں جلد از جلد گھروں میں واپس آباد کیا جائے۔ مگر سراج الحق بھول گئے ان تیس لاکھ مہاجرین کو جو ان کے اپنے جہاد افغانستان کی وجہ سے چالیس برس سے پاکستانی کیمپوں میں پڑے رُل رہے ہیں وہ کوئی نسخہ بتائیں کہ ان تیس لاکھ افغان مہاجرین کو ان کے گھروںمیں کیسے واپس بھجوایا جائے جبکہ ان کی اکثریت نے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر لئے ہیں اور یہاں شادیاں بھی رچا لی ہیں اور بڑے بڑے کاروبار بھی کھول لئے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں جماعت کو یکسو ہو جانا چاہئے تھا، اس کا اپنا ہیڈکوارٹر ماچھی گوٹھ بھارت میں تھا، اسے پاکستان سے چِڑ تھی تو ابوالکلام آزاد کی طرح وہ بھارت کو اپنا وطن سمجھتی۔ جمیعت علمائے ہند کے بیشتر اکابرین بھی وہیں ٹِکے رہے، قاضی حسین احمد کے والد گرامی تو اسی جمعیت کے عہدیدرا تھے۔ یہ وہ جمعیت ہے جو بار بار اعلان کرتی ہے کہ ان کے اکابرین پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے اور یہی وہ جمعیت ہے جس کے ایک لیڈر حسین احمد مدنی پر علامہ اقبال نے رُباعی لکھ کر تنقید کی تھی۔
یہ بحثیں تاریخ کی دھول سے اَٹ چکیں مگر یہ کیا بحث ہے کہ آپریشن ایک ڈرامہ ہے، کیا ڈرامے ڈرامے میں پاکستان اپنے ساٹھ ہزار بے گناہ شہید کروا سکتا تھا، اپنے فوجیوں کے سر قلم کروا سکتا تھا اور دہشت گرد ان کی گردنیں کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیل سکتے تھے، کیا کوئی فوج ڈرامے ڈرامے میں اپنے جرنیلوں، کرنیلوں، کپتانوں اور لیفٹینوں اور دیگر اہلکاروں کو شہید کروا سکتی ہے۔ یہ کیسا ڈرامہ ہے جو حقیقی ہے اور جس سے کم از کم پاکستانی عوام کے لئے محظوظ ہونے کے لئے کوئی سین نہیں۔ کیا واہگہ کی پریڈ میںساٹھ لاشیں تڑپی تھیں تو یہ سارا کچھ ڈرامہ تھا۔
اگرا س سارے کھیل میںڈرامے کا کوئی عنصر ہے تو یہ کہ ڈرامہ تو جماعت کر رہی ہے اور وہ بھی مینارِ پاکستان کے سائے میں جو لاکھوں شہادتوں کی علامت ہے۔ جماعت کو اگر بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور مصر کے جنرل السیسی سے کوئی عداوت ہے تو وہ ان کا انتقام پاکستان سے نہ لے، ورنہ یہاں بھی کوئی ایسا ہی کردار جماعت کے پلے پڑ سکتا ہے۔ تو پھر ایک نیا ڈرامہ شروع ہو جائے گا جو جماعت کے لئے بے حد خونی ثابت ہو سکتا ہے، جماعت اس انجام کی طرف کیوں بڑھ رہی ہے، اسے ہوش کے ناخن لینے چاہیئں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38