میں تو ہر روز لکھنے والا ہوں اور دو تین دنوں سے کالم نہیں لکھ سکا۔ کالم نہ لکھوں تو لگتا ہے کہ پورے دن میں کچھ بھی نہیں کیا۔ میں موسیٰ خیل ضلع میانوالی گیا تھا کہ میرے چچا سعداللہ خان فوت ہو گئے تھے۔ گئے ہوئے کی جستجو ہماری ایک گمشدہ آرزو ہے۔ ہم گئے ہوئوں کی یاد میں آباد تو ہو سکتے ہیں مگر انہیں مل نہیں سکتے۔
مرحوم چاچا سعداللہ خان ہم سے زیادہ بڑے نہ تھے۔ وہ لگتے بڑے بڑے تھے۔ ہم انہیں چاچا جی سمجھتے تھے مگر وہ ہمیں بھتیجا نہ سمجھتے تھے۔ دوستوں جیسا ان کا مزاج بڑی اپنائیت سے بھرا ہوا تھا۔
انہوں نے بڑی غریبی دیکھی مگر غریبی کو بھی خوش نصیبی کی طرح اختیار کیا۔ پھر ایک وقت آیا اپنے ایک لائق بیٹے برادرم ضیااللہ خان کی وجہ سے امیری بھی دیکھی اور خوب دیکھی۔ مگر کبھی بھی امیری کو اسیری نہ بننے دیا۔ ان کا طرز زندگی نہ بدلا۔ ان کے کسی معاملے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔
داتا کی نگری لاہور میں بھی کئی لوگ دوست ہوئے مگر ان کے لیے ایک سطر لکھنی پڑ جائے تو مشکل پڑ جائے۔ چاچا سعداللہ خان کے لیے تو پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
یہ لوگ کیا تھے کہ جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی انہیں دیکھا تو وہ جیسے تھے 90 سال کی عمر کے بعد بھی ویسے کے ویسے رہے۔ یہ استقامت اور ثابت قدمی کی کونسی قسم ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے مگر ان لوگوں نے مشکلوں کو بھی اسی طرح گزارا جیسے دن گزر گیا۔ جس طرح رات گزر گئی۔
ان کے نہ تو کوئی عزائم تھے نہ انہوں نے بڑی بڑی خواہشیں پالی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی سنبھال کر دل میں نہ رکھی تھیں۔ اتنے صابر شاکر لوگ کم ہو رہے ہیں۔ ہمارے درمیان شاید ہی کوئی ایسا ہو۔ چاچا جی نے زندگی کو تبدیل کرنے کی خواہش نہ کی، نہ زندگی انہیں تبدیل کر سکی، وہ اس طرح زندہ رہے جس طرح ہوا چلتی ہے، جس طرح پانی بہتا ہے، جس طرح دھوپ چمکتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ جس طرح آدھی رات کے بعد چاندنی زیادہ خوبصورت ہو جاتی ہے، زیادہ نکھرتی ہے اور بکھرتی ہے۔ چاچا جی نے کبھی کسی کا گلہ نہ کیا۔ وہ دوسروں کے بارے میں بات نہ کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں وہ روتے بھی تھے۔ وہ بہادر اور درویش آدمی تھے۔ وہ موت سے نہ ڈرتے تھے۔ ان کے عزیزوں اور دوستوں سے قبرستان بھرا پڑا ہے۔ مگر ایک دکھ بچھڑنے کا ہے۔ ہم بھی تو بچھڑنے والوں کے لیے روتے ہیں۔ رونا کمزوری نہیں ہے۔ طاقت ہے۔ میرے محبوب رسول اعظمﷺ نے فرمایا ’’لوگو رویا کرو۔ رو نہیں سکتے ہو تو روتے ہوئے لوگوں جیسی شکل بنا لو۔‘‘
ان موقعوں پر دور دراز سے بھی جاننے ماننے والے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ بہت لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں بڑی عمر کے لوگ زیادہ تھے۔ کچھ لوگ تو میرا امتحان لینا شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے پہچانا ہے؟ ہم تیسری جماعت میں اکٹھے تھے۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے پہچان لیتے ہیں جبکہ انہوں نے کبھی میرا کوئی کالم نہ پڑھا ہو گا۔ البتہ ٹی وی پر دکھائی دینے کی بات الگ ہے۔ مگر زندگی اتنی مہلت کب دیتی ہے کہ آدمی یادوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند رکھے۔ یہ تو چڑیاں ہیں کسی اور درخت پہ جا کے بیٹھ جائیں گی۔
ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کا تسلسل بڑا ضروری ہے۔ ایک جاپانی کہاوت یاد آتی ہے۔ دوست کے گھر کی طرف جانے والے راستوں پر چلتے رہو ورنہ خودرو گھاس انہیں مٹا ڈالے گی۔‘‘ زندگی بہت بے لطف اور بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔ یہی بات برادرم انعام اللہ خان نے بھی کہی۔ وہ بھی تعزیت کے لیے آئے تھے۔ ایک آدمی جو ممبر صوبائی اسمبلی ہے۔ لوگوں کے ساتھ رابطوں میں بھی رہتا ہے۔ وہ بھی کہہ رہا ہے کہ اب کوئی مزہ نہیں رہا۔ تو جینے کا مزا کہاں سے ملے گا۔ کیسے ملے گا؟
موت نہ ہوتی تو زندگی شاید کچھ اور ہوتی۔ موت نے زندگی کی قیمت بڑھا دی ہے۔ شہادت تو زندگی سے بڑھ کر ہے۔ دنیا میں جان دینے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ کوئی آدمی چارپائی پر بھی مرتا ہے تو وہ یہ قربانی ضرور دیتا ہے کہ سب سے قیمتی چیز نچھاور کر دیتا ہے۔
ہمارے گائوں میں ہی ایک آدمی تھا وہ ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ اے خدا مجھے سوہنی موت دینا۔ اسے سوہنی موت ملی۔ رات کو سویا تو صبح بیدار نہیں ہوا۔ ہمیشہ کے لیے سو گیا۔
سوہنی موت کے لئے سوہنی زندگی ضروری ہے۔ سوہنی زندگی وہ ہے جسے خود آدمی سوہنا سمجھے۔ موت آئے اور چپ چاپ اپنے ساتھ لے جائے۔ بے خبری بھی ایک نعمت ہے۔ وہ موت بھی ایک نعمت ہے جس کے قدموں کی آہٹ بھی نہ ہو۔ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ مر گیا ہے۔ موت ایک خبر ہے جو بے خبری کی طرح ہے۔ کوئی اس طرح جئے کہ اسے یاد رکھا جائے اور وہ جو بھول جائے وہ بھی اچھا آدمی ہے۔ اور اچھا آدمی بڑے آدمی سے بہت بڑا آدمی ہوتا ہے۔