آج شام تک نجانے کیا خبر آجائے۔ ممکن ہے چودھری نثار علی خان مراقبے کی کیفیت سے بالآخر باہر نکل کر اپنے مخصوص انداز میں کوئی طولانی پریس کانفرنس کرہی ڈالیں۔بے خبری کے عالم میں بوکھلائے ہمارے ذہنوں کوکبھی کبھار ایک ادارے سے جاری شدہ ٹویٹ بھی اکثر روشنی کی کوئی کرن فراہم کردیا کرتے ہیں۔شاید ایسا ہی ایک اور ٹویٹ بھی شام تک سامنے آجائے۔
منگل کی صبح بیدار ہونے کے بعد میں نے ٹویٹر اور فیس بک وغیرہ کھول کر بہت جستجو سے تازہ ترین جاننے کی کوشش کی ہے۔ یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھانے کے وقت تک ریاستِ پاکستان کے کسی مستند ادارے یا نمائندے نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے کہ ہفتے کے دن بلوچستان کی تاریخ میں گرائے جانے والے پہلے امریکی ڈرون حملے کا نشانہ افغان طالبان کے امیر ملااختر منصورتھے اور وہ اب اس دُنیا میں نہ رہے۔
صحافیوںکی مشکلات کو اکثر آسان بنانے والے ’’ذرائع‘‘ ذکر کررہے ہیں تو ’’ولی محمد‘‘نامی کسی شخص کا۔ بلوچستان کے ایک قصبے قلعہ عبداللہ کا یہ مبینہ باسی اپنے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ پر دئیے پتے کے مطابق کراچی میں کئی برسوں سے رہائش پذیر تھا۔ کراچی کے جس فلیٹ کا اس حوالے سے نمبر دیا گیا ہے، وہاں اب کوئی اور رہ رہا ہے اور اس رہائشی کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چار سال سے وہ اس فلیٹ میں مقیم ہے اور اس نے یہ فلیٹ ایک پراپرٹی ایجنٹ کی معرفت حاصل کیا تھا۔
قلعہ عبداللہ ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ اس قصبے کے رہائشی ایک دوسرے کی بابت خوب جانتے ہیں۔ انسان تو دور کی بات ہے، قبائلی بندھنوں میں جڑے اس قصبے میں لوگ کسی جانور کو دیکھ کر بھی اس کے مالک کا پتہ بتادیتے ہیں۔ ولی محمد کے بارے میں قلعہ عبداللہ کے باسی مگر قطعی بے خبر دِکھ رہے ہیں۔ اس قصبے کا کوئی رہائشی ’’ولی محمد‘‘ کا باپ یا بھائی بن کر بھی ہمارے سامنے نہیں آیاہے۔ قبائلی معاشرت میں اپنوں سے ایسی بیگانگی ہرگز نہیں برتی جاتی۔ اس معاشرے کے کسی فرد کا کوئی قریبی عزیز مارا جائے تو اس کی لاش کو باقاعدہ وصول کرکے مذہبی روایات کے عین مطابق غسل کروانے اور کفن میں لپٹانے کے بعددفنایا جاتا ہے۔ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے گھر میں ہوئی کسی موت کی خبر سن کر پرسہ دینا بھی قبائلی ثقافت کی اہم ترین روایت ہے۔ قلعہ عبداللہ کے کسی گھر سے ’’ولی محمد‘‘ کی موت کا ’’پرسہ لینے‘‘ کے لئے کوئی شخص ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آیا ہے۔
ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ’’ولی محمد‘‘ درحقیقت کو ن تھا؟ اس کا پاسپورٹ اگرچہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اکثر دوبئی بھی جایا کرتا تھا۔ دوبئی وہ کیوں جایا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آپائی ہے۔ ایک بات البتہ بہت تسلسل کے ساتھ دہرائی جارہی ہے اور وہ یہ کہ مرحوم جب امریکی ڈرون کا نشانہ بنے تو اس وقت ایک ٹیکسی میں سوار افغان سرحد کی جانب جارہے تھے۔ ڈرون سے تباہ ہونے والی ٹیکسی کومرحوم نے ایران کے سرحدی شہر تفتان سے پاکستانی حدود میں داخل ہونے کے بعد اپنے سفر کے لئے کرائے پر لی تھی۔ وہ ٹیکسی تو تباہ ہوگئی۔ ولی محمد کی لاش بھی جھلس گئی مگر اس کا پاسپورٹ معجزاتی طورپر محفوظ رہا۔ اس پاسپورٹ کی بچت نے کم از کم مجھے نادرا کی تکنیکی مہارت کا معترف بنایا۔ اس کا بنایا پاسپورٹ Fire Proofثابت ہوا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار۔
منگل کی صبح یہ کالم لکھنے تک کسی بااعتبار پاکستانی ادارے یا شخصیت نے افغان طالبان کے رہ نما ملااختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی۔ بلوچستان سے ہزاروں میل دور ویت نام میں کھڑے ہوکر کئی سمندر پاررہنے والے امریکی صدر اوبامہ نے مگر ٹی وی کیمروں کے سامنے آکر بڑے فخر سے اعلان کردیا ہے کہ اس کے دفاعی اداروں نے ہفتے کے دن پاکستان کے بلوچستان میں ایک ڈرون گراکر’’مسٹرمنصور‘‘ کو مارڈالا ہے۔
امریکی صدر کا اصرار ہے کہ ’’مسٹر منصور‘‘ کو مارناضروری ہوگیا تھا کیونکہ وہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر دیرپا امن قائم کرنے کی کوشش کے لئے تیار نہیں ہورہا تھا۔ امن کے بجائے ’’مسٹر منصور‘‘ کی ترجیح افغان اورامریکی حکومت کو مسلح کارروائیوں کے ذریعے نقصان پہنچانا تھا۔ ’’مسٹرمنصور‘‘ کا مارے جانا امریکی صدر نے ایک ’’سنگ میل‘‘ بھی قرار دیا۔ موصوف کو یقین تھا کہ اس کی ہلاکت کے بعد طالبان کو سمجھ آجائے گی کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
بات صرف افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے تک محدود رہتی تو شاید میں اتناحیران وپریشان نہ ہوتا۔’’مسٹرمنصور‘‘ کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر اوبامہ نے پاکستان کو بھی تڑی لگادی کہ وہ اپنے زیرنگین علاقوں میں ’’(مذہبی) انتہاء پسندوں کی پناہ گاہیں‘‘قائم نہ ہونے دے۔ میں خارجہ امور کا ماہر نہیں۔ سفارتی زبان سمجھے کے لئے ایک خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس مہارت سے قطعاََ محروم ہوں۔ سفارتی زبان سے قطعی ناآشنا ہونے کی وجہ سے لہذا عام پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میں بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ ویت نام میں کھڑے ہوکر امریکی صدر نے درحقیقت ہمیں پیغام دیا ہے کہ میرے ملک میں صرف قبائلی علاقوں پر ہی نہیں کسی بھی مقام پر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کیے جاسکتے ہیں۔ سفارتی سطح پر احتجاج حسبِ روایت یہ ڈرون حملے نہیں روک پائے گا۔
امریکی صدر کے ویت نام میں دئیے بیان کو میں ’’جارحانہ دھمکی‘‘ کہنے پر مجبور ہوں۔ایک سپر پاور کے ایسے جارحانہ بیان کے بعد ریاستِ پاکستان کی جانب سے کوئی حوصلہ بخش پیغام کی مجھ ایسے کمزور ایمان والے شخص کو شدید ضرورت تھی۔ ہمارے حکمران اشرافیہ کا رویہ مگر سفاکانہ لاتعلقی اور بے حسی کا اظہار کرتانظر آرہا ہے۔دُکھ یہ بھی ہے کہ اس لاتعلقی اور بے حسی کے بارے میں اپوزیشن میں جمع ہوئے سیاست دان بھی کوئی خاص فکر مند نظر نہیں آرہے۔ جائیں تو کہاں جائیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024