لندن شہر کا میئر ڈرائیور کا بیٹا صادق خان بنا ہے۔ اور خوشیاں پاکستان میں منائی جا رہی ہیں۔ ڈرائیور کا بیٹا کسی حوالے سے منتخب ہوا ہے۔ وہاں تو کنڈکٹر کا بیٹا بھی شہر کا میئر بن سکتا ہے۔ یہ الیکشن صادق خان پاکستان کے کسی شہر کے لئے لاہور سے لڑتا تو کبھی کامیاب نہ ہو سکتا۔ بلکہ یہاں اس کا مذاق اڑایا جاتا اور بیچارے کی ضمانت ضبط ہو جاتی۔ یہاں الیکشن کے لئے کوئی اچھا اور شریف آدمی سوچ نہیں سکتا۔
برادرم قمر سلیمان بہت کشادہ دل اور عالی ظرف آدمی ہیں۔ ہنس مکھ اور دوست نواز ہیں۔ باتیں بہت آسانی اور آسودگی سے کرتے ہیں۔ قمر سلیمان کہنے لگے کہ ہم انگریزوں سے آگے ہیں۔ یہاں امیر کبیر جاہل ظالم کا بیٹا بھی بڑی آسانی سے الیکشن جیت جاتا ہے۔ اپنے مفاد کے لئے لوگ گدھے کو اپنا باپ بنا لیتے ہیں۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے۔ ہم اس پر غور کریں۔ کچھ باتیں کہنے کے لئے ہوتی ہیں لکھنے کے لئے نہیں ہوتیں۔ مگر اب سب لوگ بات کی تہ تک پہنچتے ہیں۔
قرآن میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ کبھی کبھی انسان جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ مگر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی گواہی بھی قرآن نے دی ہے۔
جس معاشرے میں انسان کی عزت و توقیر ختم ہو جائے دوسروں کو انسان ہی نہ سمجھا جائے۔ وہاں اب مغرب والوں کے کلچر اور معاشرت سے مثالیں لا کے ہم انسان کی عظمت کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں مغرب والوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دینا چاہئے۔ کسی جگہ پاکستان میں ایک مزدور کی گدھا گاڑی ایک وڈیرے کی گاڑی سے ٹکرا گئی تو قصور گدھا گاڑی والے کا نکل آیا۔ جبکہ قصور گاڑی والے کا ہونا چاہئے۔ ٹریفک رولز میں تو یہی لکھا ہے۔ مگر اصل قصور تو غریب ہونا ہے؟ یہ قصور تب تک رہے گا کہ لوگ بے تحاشا امیر ہوتے رہیں گے۔ میرے خیال میں ایک حد سے زیادہ امیری دو نمبر کاموں کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ جوتا منہ میں لے کر معافی منگوانا غیر انسانی فعل ہے۔ میں یہ بات کئی بار لکھ چکا ہوں حکمرانو! تم ہمیشہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے ہو کہ ہم غریبی ختم کر دیں گے۔ میری گزارش ہے کہ تم غریبی ختم نہیں کر سکتے تم خود امیر کبیر ہو۔ صرف اتنا کرو کہ تھوڑی سی امیری ختم کر دو۔ امیری اور غریبی میں اتنا فاصلہ بڑھا دیا گیا ہے کہ کوئی فیصلہ کارگر ہی نہیں ہوتا۔
تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی اسد عمر نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خوشخبری سنائی کہ آپ آئندہ پانچ سال کے لئے بھی وزیر خزانہ ہوں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اسد عمر نے یہ مذاق کیوں کیا ہے۔ نواز شریف وزیراعظم ہوں گے تو اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہوں گے۔ اسد عمر کے لیڈر اور میرے رشتہ دار عمران خان تو کچھ اور کہتے رہتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے اسد عمر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ ہماری ”کامیابی“ کا اعتراف ہے۔ یہ بات اس موقعے پر کہی گئی ہے کہ اگلا بجٹ بھی کوئی خاتون ڈار صاحب کے ساتھ پیش کرنے والی ہیں۔ دونوں کو مبارک ہو۔ ہمارے پاس خزانہ نہیں ہے مگر وزیر خزانہ ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کے لئے اسد عمر یہ نہیں کہیں گے کہ وہ وزیر ہیں۔ بنائے نہیں گئے۔ نجانے کیوں چودھری صاحب اسحاق ڈار کو پسند نہیں کرتے۔ وہ تو خواجہ آصف کو بھی پسند نہیں کرتے۔ نوازشریف کی پسند و نا پسند بہت معنی خیز ہے۔ جسے اسحاق ڈار بامعنی سمجھتے ہوں گے۔
یہ ہوتی ہے انسان دوستی۔؟ کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، یوسف رضا گیلانی کے گھر بیٹے کی بازیابی کی مبارکباد دینے نوازرشریف کے پیچھے پیچھے پہنچ گئے۔ گیلانی صاحب ممبر اسمبلی ہوتے تو پھر بھی کوئی جواز تھا ؟ عزیزم علی حیدر گیلانی بالکل صحت مند ہیں۔ ان کے اپنے بقول ان پر بہت تشدد کیا گیا تھا۔ ویسے میں طالبان کی پلاننگ پر بھی حیران ہوں۔ علی حیدر گیلانی کو اغواءکرنے کی کیا ضرورت تھی اور پھر ان پر تشدد کرنے کی کیا ضرورت تھی اس تکلیف کا کیا فائدہ ہوا۔؟
مجھے حمزہ شہباز کا یہ جملہ بہت پسند آیا کہ عمران خان کو وزیراعظم بننے کی جلدی ہے وہ شیروانی پہن لیں۔ میں انہیں وزیراعظم کہہ دوں گا۔ اس میں یہ راز چھپا ہوا ہے کہ شریف فیملی کے علاوہ پاکستان میں کوئی وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ وہ جلا وطن تھے تو کوئی بن گیا۔ ورنہ کوئی ہم وطن اس طرح سوچ بھی نہیں سکتا۔ گیلانی صاحب کے گھر جا کے نوازشریف نے ثابت کیا کہ وہ اپنا ہی آدمی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران بھی گیلانی صاحب نوازشریف کی باتوں میں آ گئے تھے۔ ”صدر“ زرداری نے محسوس کیا مگر گیلانی صاحب کو پتہ نہ چلنے دیا۔ گیلانی صاحب کو عدالت عظمیٰ نے وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل کیا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پرویز رشید اور نعیم الحق کی ملاقات میں راز و نیاز نہیں ہوئے تو پھر کیا ہوا تھا؟ لوگوں میں یہ بات زیربحث آئی۔
نعیم صاحب کی صفائی دینے کی قریشی صاحب کو کیا ضرورت تھی۔ راز تو شاہ محمود قریشی کی ملاقاتوں میں ہوتے ہیں اور نیاز بھی۔ سیاست میں نذر و نیاز کے بہت قائل قریشی صاحب ہیں۔ قریشی بھی پرویز رشید کی طرح پہلے پیپلزپارٹی میں تھے۔ انہیں اپنے ساتھ بے انصافی کے لئے ”صدر“زرداری سے شکایت تھی کہ انہوں نے دوسری بار قریشی صاحب کو وزیر خارجہ نہیں بنایا تھا۔ ورنہ وہ کبھی تحریک انصاف میں نہ جاتے اب بھی عمران خان کو معلوم ہے کہ وہ وزیر خارجہ سے کم پر راضی نہیں ہونگے۔ ورنہ وزیراعلیٰ پنجاب ۔؟ اس کے لئے چودھری سرور بھی امیدوار ہیں دیکھیں گے کہ وہ اپنے گورنر کو کس قدر اختیارات دیتے ہیں۔