نجانے کس کیفیت میں واصف علی واصف نے کہا ’’پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے۔‘‘ وہ جو پاکستان کے لئے محرومیوں اور مایوسیوں کی گرد اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قائداعظم کتنے مسلمان تھے تو یاد رکھیں پاکستان ایک راز ہے اور یہ اپنے وقت پر منکشف ہو گا۔ واصف صاحب کے اس جملے پر غور کریں۔ ’’پاکستان کو بچائے رکھنے کے لئے اتنا ہی اسلام درکار ہے جو قائداعظم کے پاس تھا۔‘‘
ہر سال واصف صاحب کی یاد سے اپنے دلوں کو آباد رکھنے کے لئے ان کے صاحبزادہ کاشف صاحب ایک سیمینار کراتے ہیں اور سردار اقبال کے دوست ایس ایم ظفر سردار اقبال کی یاد میں محفل سجاتے ہیں۔ مجھے ان دنوں یادگار محفلوں سے خوشبو کشید کرنے کا ایک ساتھ خیال کیوں آیا۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ظفر صاحب کی ملاقات بھی واصف کے ساتھ تھی۔ دونوں زندہ محفلیں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی اس محفل سے اٹھ کر نہیں جاتا۔ وہ لوگ بھی جو واصف صاحب سے ملے نہیں ہیں ان کی آنکھوں میں بھی عقیدت ہوتی ہے۔ کاشف صاحب نے بہت خوبصورت گفتگو کی۔ قمرالزمان کائرہ اسلام آباد سے اپنی گاڑی خود ڈرائیور کر کے آئے۔ وہ کبھی واصف صاحب سے نہ ملے مگر آج واصف صاحب کو ملنے والے بڑی محبت سے ان کو مل رہے تھے۔ تھکن اور لگن ان کے لہجے میں مل کر بیدار ہو رہی تھی۔ انہوں نے موجودہ صورتحال میں سیاست کو واصف صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا۔
اس محفل میں سب سے یادگار جامع اور شاندار گفتگو ایڈووکیٹ اہل اور اہل دل انسان منصور الرحمن آفریدی نے کی۔ یوں بھی عام طور پر اپنی گفتگو میں وہ واصف کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان کے عاشق صادق ہیں۔ آفریدی صاحب کہتے ہیں کہ اب پھر پاکستان میں ایک زمانے کو واصف صاحب کی ضرورت ہے۔ صوفی جغرافیے کا قائل نہیں ہوتا۔ مگر واصف صاحب تاریخ کے ساتھ ساتھ جغرافیے کے قائل تھے۔ وطن کے بھی قائل تھے۔ نسبت بہت مستحکم جذبہ ہے۔ نسبت نسب سے بڑی ہے۔ کیا فکرانگیز جملہ واصف صاحب نے کہا ’’جس کا اس وطن میں کوئی محبوب نہیں ہے وہ وطن سے محبت نہیں کر سکتا۔ پہلے کسی کی ذات پر اعتماد ہوتا ہے۔ پھر اس کی باتوں پر اعتماد ہوتا ہے۔‘‘ واصف صاحب وطن میں فرقہ واریت کے ناسور کو ختم ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ آج پورے عالم اسلام کو فرقہ واریت کے حوالے سے منقسم کیا جا رہا ہے۔ ضرورت مسلمانوں کو متحد کرنے کی ہے۔ کتنی دلسوزی سے انہوں نے کہا ’’فرقہ پرست حسن پرست نہیں ہو سکتا۔‘‘ انجم شکیل گیلانی نے بھی گفتگو کی۔ ان کی ایک بات کو سب نے انجوائے کیا۔ واصف صاحب کی محفل کی کشادگی کو بھی محسوس کیا۔ انجم شکیل نے کہا کہ دلوں کو زندہ رکھو خواہ نورجہاں کا گیت سن کر ہی زندہ رکھو مگر دل واصف صاحب کی باتیں سن کر زندہ ہوئے۔ وہ سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ پاکستان خطہ عشق محمدؐ ہے۔ حکیم الامت اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے سیرت رسولؐ کو فروغ دینے پر زور دیا کہ دنیا بھر کے لئے یہی پیغام زندگی ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور ایک دوسرے کو معاف کرنا ایک اچھی زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ آفریدی صاحب کے بقول اللہ کا دوست رات کو بندوں کی باتیں خدا سے کرتا ہے اور دن کو خدا کی باتیں بندوں سے کرتا ہے۔
آفریدی صاحب نے چیف جسٹس ہائی کورٹ مرحوم جسٹس سردار اقبال کے لئے بھی بہت محبت سے بات کی۔ وہ کھلے دل کے آدمی تھے۔ ہر شخص ان کا نام عزت سے لیتا ہے۔ ان کے چیمبر سے بڑے بڑے لوگ منسلک رہے۔ ان کے چیمبر سے منسلک وکلاء جج بنے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ ان سے کسی طرح منسوب ہونا ہی ایک کریڈیبلٹی تھی اور یہ کریڈٹ ساری زندگی سردار صاحب کے دوستوں کے کام آیا۔
یہ اہتمام ایس ایم ظفر کرتے ہیں۔ ان کی بہت سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے زیراہتمام بہت زبردست محفلیں ہوتی ہیں۔ وہ ہر سال معاشرے کے جینوئن لوگوں کو ایوارڈ دیتے ہیں۔ یہ اصل میں اس محبت اور محبت کا ریوارڈ ہوتا ہے جو وہ اپنے اپنے شعبہ زندگی میں وطن عزیز کے لئے وقف کرتے ہیں۔
جسٹس سردار اقبال کی یاد میں یہ ساتواں فنکشن تھا۔ جسٹس فضل کریم نے ان کے حوالے سے لیکچر دیا جس سے زندگی کے حوالے سے کئی باتیں بہت اہم ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا لیکچر جسٹس رانا بھگوان داس نے دیا تھا۔ انہیں ظفر صاحب نے ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی طرف سے ایوارڈ بھی دیا۔ ان سے مل کر میں بہت خوش ہوا اور جب انہوں نے بتایا کہ وہ نوائے وقت پڑھتے ہیں اور میرا کالم بے نیازیاں بھی دیکھتے ہیں تو مجھے مرشد و محبوب مجید نظامی کی محبتوں کی خوشبو آئی۔ وہ ایسے لوگوں کو ’’نوائے وقتیا‘‘ کہتے تھے۔ دوسرا لیکچر جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے دیا۔ اس کے بعد نامور صحافی آئی اے رحمان اور پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور ڈاکٹر مجاہد کامران نے دیا۔ ایک روشن دماغ اور سکالر میمونہ مصطفی ملک سعودی عرب سے تشریف لائی تھیں اور ساتویں لیکچر میں جسٹس فضل کریم نے بہت اچھی باتیں کیں۔ ان لیکچرز میں موضوعات کا ایک گلشن سجا ہوتا ہے۔
حسب معمول کمپیئرنگ تنویر عباس تابش نے کی۔ ان کے طرز خطاب سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی محفل کو کمپیئرنگ زندہ رکھتی ہے۔ ظفر صاحب کے بیٹے عاصم ظفر نے سردار صاحب کے بیٹے عبدالغفار کے ساتھ اپنی دوستی کے حوالے سے باتیں کیں۔ سردار صاحب کے چیمبر سے ایس ایم ظفر صاحب بھی وابستہ رہے۔ اس وابستگی کو انہوں نے اپنی وارفتگی بنائے رکھا ہے۔ اس طرح ایک فیملی ریلیشن وجود میں آیا۔
سردار صاحب کے صاحبزادے شاہد اقبال اور اس کی پوری فیملی نے ایک شیلڈ ظفر صاحب کو پیش کی جس پر لکھا تھا کہ 1951 سے جو پیار ظفر صاحب نے دیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ ان کی وجہ سے سردار اقبال ہمارے لئے زندہ تر ہیں۔ یہ ایک گھریلو شان میں لپٹی ہوئی تقریب تھی۔ تلاوت ریحانہ باجوہ نے کی۔ ہمارے ایک شاندار دوست شاعر حکیم سلیم اختر نے اپنی خوبصورت نعت سنائی۔ سوسائٹی کے لئے بہت سرگرم شکوری صاحب نے ابتدائی کلمات کہے۔ مہناز رفیع سٹیج پر تھیں۔ ایس ایم ظفر کی باتیں فکر انگیز ہوتی ہیں اور خوشگوار بھی ہوتی ہیں۔ تالیاں بجانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ مہنگی نہیں ہوئیں اور نہ ان پر کوئی ٹیکس لگا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024