قوالی سننے والوں کو بھی بارگاہ رسالت میں سوالی بنا دیتی ہے۔ یہ سوال عشق رسول سے پگھلتے ہوئے برادرم سعید آسی نے آرٹسٹ عرفان کھوسٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آﺅ اب پاکستان سے ہجرت کریں ۔ یہ کیا وقت ہم پر آیا ہے؟ امجد صابری کی جھولی بھری ہوئی تھی مگر وہ ساری عمر صدا لگاتا رہا۔ بھر دو جھولی میری یا محمد۔ بھری ہوئی جھولی کو محمد الرسول اللہﷺ کے علاوہ کون بھر سکتا ہے ۔ ان کے جنازے کی تصویریں میں نے دیکھی ہیں۔ اتنا بڑا جنازہ شاید ہی کراچی کے آسمان نے دیکھا ہو؟ عشق اور عشق رسول میں بکھرتے ہوئے اور نکھرتے ہوئے مسافر کا جنازہ تھا۔ لوگوں کا والہانہ پن اور جوش و خروش دیکھنے والا تھا۔ ان کے جنازے کو چھونا تو ممکن ہی نہ تھا۔ دیکھ لینا بھی دشوار تھا۔ اتنی دنیا کہاں سے امڈ پڑی۔ یہ عشق محمد کی کشش تھی جو ہجوم کو کھینچ لائی تھی۔ جنازے میں درود شریف کے نعرے لگے۔
امجد صابری سے سب لوگ محبت کرتے تھے اور وہ رسول کریم سے محبت کرتا تھا۔ اتنا بڑا عاشق اہلبیت کم کم ہو گا۔ اس نے کسی کو نقصان پہنچانے کا سوچا ہی نہ ہو گا۔ اس کا کوئی دشمن نہ تھا۔ سب اس کے دوست تھے۔
تو پھر کیوں اسے مارا گیا۔ نامعلوم لوگوں نے قتل کیا۔ یہ کون نامعلوم قاتل ہے جس نے معلوم کے راستوں پر منزل عشق کے قریب خون ناحق کے دریا بہا دئیے ہیں۔ معلوم کے نامعلوم کی طرف سفر کرنے والے کہاں کھو گئے ہیں؟ امجد صابری نے پہلے قاتل کو دیکھا ہی نہ ہو گا۔ اسے گولیاں مارنے والے کون تھے وقت آنے والا ہے کہ صرف مقتول کا پتہ ہو گا قاتل کا کسی کو پتہ ہی نہ ہو گا۔ اسے یہ بھی پتہ نہ ہو گا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے۔ کسے قتل کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ امجد صابری کے لئے قاتلوں کو کچھ پتہ نہ ہو گا۔ وہ اسے جانتے ہوتے۔ انہوں نے امجد صابری کو سنا ہوتا۔ بھر دو جھولی میری یا محمد۔ تو وہ کبھی اس بیش بہا آدمی کو قتل نہ کرتے۔ وہ جو عمر بھر لوگوں کے دلوں میں عشق رسول کی دھیمی روشنی سلگاتا رہا۔ اسے سن کر لوگوں کے دلوں میں کئی چراغ جل اٹھتے تھے اس کے قاتل اسے نہ جانتے ہوں گے مگر یہ جانتے تھے کہ یہی امجد صابری ہے۔ جس کے ساتھ لوگ محبت کرتے ہیں۔ اس کے جنازے نے ثابت کر دیا کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا اور سچا عاشق رسول تھا۔
کراچی میں کیا ہو رہا ہے۔ یہاں حکیم سعید جیسے بڑے آدمیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ فاروق ستار کہتے ہیں کہ امجد صابری کو پاکستان سرزمین پارٹی والوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ امجد صابری پاک سرزمین کا سچا بیٹا تھا۔ اس موقع پر سیاست نہ کی جائے ۔ لوگ رینجرز کا نام بھی لیتے ہیں مگر حکیم سعید کی شہادت کے وقت تو پاکستان سرزمین پارٹی نہ تھی اور نہ رینجرز شہر میں تھی۔ مگر اب رینجرز کی ذمہ داری کیا ہے؟ وہ جو شہر میں امن بحال کرنے کے دعوے کرتے ہیں کہاں ہیں؟
کراچی میں گورنر ہاﺅس لگاﺅ۔ اس شہر میں مارشل لاءنہ لگاﺅ مگر کوئی تو لاءہو جس کی پابندی سب پر واجب ہو۔ سندھ حکومت کو اخلاقاً مستعفی ہو جانا چاہئے۔ قائم مقام شاہ کو دوسری بار اسی لئے حکمران بنایا گیا کہ محکوم مظلوم ہو جائیں۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کسی سیاسی پارٹی کے لئے نہ ہو گی۔ انہیں حکومت میں ڈر ڈر کے رہنے کا حق نہیں ہے۔ زرداری صاحب سندھ حکومت کو تبدیل کرو۔برادرم چودھری غفور امجد صابری کا جنازہ دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ عشق رسول کی چنگاریاں کہاں کہاں بھڑک رہی ہیں۔ کیا اس سے پہلے کسی جنازے میں درود شریف کے نعرے لگے ہیں؟
کسی سیاستدان حکمران بیورو کریٹ کو اس جنازے میں شرکت کی سعادت نصیب نہ ہوئی؟ اس کے جنازے میں ہزاروں لوگ تھے مگر کوئی سرکاری آدمی نہ تھا۔ سرکاری آدمی تو یہاں برداشت بھی نہ کیا جاتا۔ لوگ حکومت والوں کو بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ لگتا تھا جیسے پورا کراچی امڈ آیا ہو کسی تھانے کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو اسے تبدیل کر دیتے ہیں مگر سندھ حکومت لوگوں پر مسلط ہے اس بے کار اور بزدل حکومت کا کیا فائدہ ہے؟
امجد صابری بڑا آدمی تھا۔ ثناءخوان رسول کے جنازے میں ایک ہجوم عاشقان اس کے سفر آخرت میں شریک تھا۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ ایم کیو ایم کا بھی کوئی سیاستدان نہ تھا۔ نہ پاک سرزمین پارٹی کا کوئی آدمی تھا۔ حکومت کا کوئی نمائندہ نہ تھا۔ رینجرز کی نمائندگی بھی نہ تھی۔ کیا اس طرح کراچی میں امن و امان بحال ہو جائے گا۔ کوئی سیاستدان نہ تھا کاش پاک فوج کا کوئی آدمی تو ہوتا....
امجد صابری کی آخری نعت خوانی سنئے۔ وہ قبر کی تنہائیوں میں محبوب کریم حضرت محمد الرسول اللہ سے امداد کی التجاءکر رہا ہے۔ اس کی آواز کی گھمبیرتا اور سندرتا سیدھی دلوں میں اتر رہی ہے۔ وہ شہید ہے اور شہید زندہ ہوتے ہیں مگر ہم جیتے جی مر گئے ہیں۔ رسول کریم ضرور امجد صابری کی مدد کو آئیں گے تو پھر ظالم کہاں جائیں گے۔ کراچی میں قتل عام تو ایک کلچر بن گیا ہے۔ مجھے خوف آ رہا ہے۔ امجد صابری شہید کا خون رنگ لائے گا۔ یہ خون کا سیل رواں بنے گا۔ کراچی کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ امجد صابری شہید کے جنازے میں لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم کس طرف اشارہ کر رہا ہے۔
کوئی سیاسی، سرکاری، اور فوجی نمائندہ جنازے میں نہ تھا۔ ایم کیو ایم کا بھی کوئی نام و نشان جنازے میں نہ تھا۔ رینجرز کا بھی کوئی نمائندہ نہ تھا تو یہ صورتحال کیا ظاہر کر رہی ہے؟
بے شمار شاعر اختر شمار کے اردو بازار والے دفتر میں اقبال پیغام نے مجھے پرنم الہ آبادی کی کتاب ”بھر دو جھولی میری یا محمد“ عطا کی۔ پوری نظم کتاب میں شامل ہے۔ دو شعر عرض ہیں....
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاﺅں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، درپہ آیا ہوں بن کے سوالی
کاش پرنم دیار نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حالِ غم مصطفی کو سناﺅں تھام کر ان کے روضے کی جالی
مر کر زندہ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اتنے آدمی اکٹھے کر دکھائے کہ سیاست و حکومت کے وارث لاوارث ہو گئے۔ وہ جس دھج سے مدفن کی طرف گیا۔ ہزاروں لوگ امجد صابری کی شان دیکھ رہے تھے۔ مجھے یقین ہے وہ بارگاہ رسالت میں حال دل اور احوال وطن سنا رہا ہو گا۔ ہجرت کی سوچ کیا ہے۔ رسول نے بھی ہجرت کی مگر ہم کہاں جائیں؟ عشق رسول کے چراغ سے اب کئی چراغ جل اٹھیں گے۔ امجد صابری کے فقید المثال جنازے نے کئی راز اگل دیئے ہیں۔ رنج و غم میں تڑپتے ہوئے ہجوم کا رخ درباروں کی طرف اور سرکاری ایوانوں کی طرف ہو گیا تو کیا ہو گا؟
وہ جن کی جھولیاں خالی کر دی گئی ہیں۔ وہ یہ گاتے ہوئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے بھر دو جھولی میری یا محمد۔ تو وہ لوگ کہاں جائیں گے۔ جنہوں نے قومی خزانے لوٹ کر اپنے گھر بھر لئے ہیں۔ ہر دکھی شخص سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ نجانے کس طرف دیکھ رہے ہیں؟