23 جولائی کو مَیں لاہور میں تھا۔ میرا خیال تھا کہ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے "Youngster,s Garaduation Ceremony" میں مجاہدِ تحریک ِآزادی ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی ’’زیارت‘‘ ہو جائے گی۔‘‘ جِن بزرگوں نے قائداعظمؒ کو دیکھا اور اُن کے ساتھیوں اور کارکنوں کی حیثیت سے کام کِیا مَیںاُن سے ملاقات کو ’’زائرینِ قائدِاعظم کی ’’زیارت‘‘ کہتا ہُوں۔ جنابِ نظامی کے ’’شہبازِ پاکستان‘‘ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی قائدِاعظم کو نہیں دیکھا لیکن میری طرح وہ بھی ’’زائرینِ قائدِاعظمؒ کی زیارت‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر جنابِ مجید کی زیارت اور فرمودات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اُن کے تجربے میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
مَیں نے شہبازِ پاکستان کی باقاعدہ زیارت کئی سال بعد اُس وقت کی جب انہوں نے 2008 ء کے عام انتخابات کے بعد وزارتِ عُلّیہ کا حلف اٹھایا اور مَیں کالم نویسوں سے اُن کی پہلی بریفنگ میں اسلام آباد سے حاضر ہُوا اور دوسری بار 18 دسمبر 2013 ء کو ’’پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقریبِ عطائے گولڈ میڈل میںجب وہ مہمانِ خصوصی تھے اور جہاں انہوں نے جناب مجید نظامی اور فرزندِ ِاقبال ڈاکٹر جاوید اقبال سمیت تحریکِ پاکستان کے 147 کارکنوں یا اُن کے وارثوں کے گلے میں گولڈ میڈل پہنائے۔ ایک گولڈ میڈل میرے والدِ مرحوم رانا فضل محمد چوہان کا تھا جو خادمِ اعلیٰ نے میرے گلے میں پہنایا۔
23 جولائی کو ایوانِ کارکنانِ تحریک ِپاکستان کا ’’وائیں ہال‘‘ "Youngster,s" (6 سے 13 سال کے طلبہ و طالبات) اور اُن کے والدین اور خواتین/ اور مرد اُساتذہ سے بھرا تھا۔ سٹیج پر وائس چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر رفیق احمد، وائس چیئرپرسن بیگم مجیدہ وائیں، چیف کوارڈینیٹر میاں فاروق الطاف، لیفٹیننٹ جنرل (ر) ذوالفقار علی خان، پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی، سید شاہد رشید اور پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات رانا محمد ارشد کے ساتھ مَیں بھی بیٹھا تھا کہ سیّد شاہد رشید نے اعلان کِیا کہ ’’مہمانِ خصوصی وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف دوسری مصروفیات کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے اور انہوں نے اپنے قریبی عزیز اور پنجاب کے وزیرِ خوراک جناب بلال یاسین کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے بھجوا دِیا ہے۔‘‘ محترم مجید نظامی صاحب کی ناسازی طبع کی اطلاع پہلے ہی آ گئی تھی جِس کی وجہ سے وہ تشریف نہیں لا سکے تھے۔
جناب بلال یاسین نے اپنے خطاب سے پہلے جناب مجید نظامی اور اُن کے رُفقائ، سمر سکول کے (خواتین و حضرات)، اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے نام وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا پیغام پڑھ کر سُنایا اور کہا کہ ’’میاں شہباز شریف نے مجھے اِس تقریب میں بطورِ خاص بھیجا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نظریاتی سمر سکول کے قیام اور وہاں نوخیز طلبہ و طالبات کی نظریاتی تربیت کے پروگراموں کے بہت مُعترف ہیں اور انہوں نے اسناد اور شیلڈز حاصل کرنے والے سمر سکول کے طلبہ اور طالبات، اُن کے والدین اور اساتذہ کو بھی مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔‘‘ وزیرِ خوراک نے کہا کہ ’’میں بھی جنابِ مجید نظامی کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے،نظریاتی مملکت کے نونہالان کی نظریاتی تربیت کا بندوبست کیا ہے۔ قبل ازیں اپنے خصوصی پیغام میں۔ وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا کہ ’’ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی چیئرمین شپ میں ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ غیرت کا پاسدار اور قومی جذبوں کو بیدار کرنے والا ہے اور اِس کے زیرِ اہتمام نظریاتی سمر سکول میں نونہالانِ وطن کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو گی جو مستقبل میں قائدِاعظم، علّامہ اقبالؒ اور مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے افکار و نظریات پر عمل پیرا ہو کر ملک اور قوم کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے گی۔‘‘
"Garaduation Ceremony" کے شرکاء کے نام محترم مجید نظامی کا پیغام میاں فاروق الطاف نے پڑھ کر سُنایا۔ جنابِ نظامی نے کہا کہ ’’نظریاتی سمر سکول کا مقصد 6 سے 13 سال کی عُمر کے بچوں کو آسان زبان میں تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان کے حقیقی اسباب و مقاصد اور نظریہ پاکستان سے روشناس کرانا اور قائد ِاعظمؒ، علّامہ اقبالؒ اور مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور دیگر مشاہِیر تحریک پاکستان کی حیات و خدمات سے آگاہ کرنا ہے تاکہ اِن کے دِل و داماغ میں وطنِ عزیز کی دِل و جان سے خدمت کرنے کے لئے جذبات بیدار کئے جا سکیں۔‘‘
ڈاکٹر مجید نظامی صاحب اور تحریکِ پاکستان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے اُن کے رُفقاء کا دم غنیمت ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نئی نسل کی نظریاتی تربیت کا کام مختلف اوقات میں جو کام مسلم لیگ کے نام سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے تھا وہ کردار ڈاکٹر نظامی صاحب کی سرپرستی اور چیئرمین شپ میں متحرّک اور سرگرم عمل دو نظریاتی اداروں تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ نے ادا کیا ہے وہ اِسی لئے ضروری تھا کہ ’’پاکستان کے 72ہزار سے زیادہ دِینی مدرسوں میں جِن میں سے اکثر اُن مذہبی/ سیاستدانوں کے زیرِ انتظام چل رہے ہیں جِن کے بزرگوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی اور علّامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے تھے۔ اِن مدرسوں میںسے زیادہ تر ’’مطالعۂ پاکستان کا مضمون‘‘ نہیں پڑھایا جاتا۔
اپنے پیغام میں جنابِ نظامی نے بقول قائداعظمؒ ’’پاکستان کی شہ رگ کشمیر‘‘ کو بھارت کے قبضے سے چھڑانے پر زور دِیا کیونکہ ’’وہ مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہنے والے ہمارے دریائوں پر 60 سے زیادہ ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔‘‘ محترم نظامی صاحب نے کہا کہ ’’بھارت سے مذاکرات یا اقوامِ متحدہ کی قرارداوں کے ذریعے ہمیں کشمیر نہیں مِل سکتا۔ ہمیں بھارت سے دو دو ہاتھ کرنا ہوں گے۔‘‘ جنابِ نظامی نے مظلوم فلسطینیوں کی امداد کے لئے عالمِ اسلام کے اتحاد اور پاکستان کو عوامی امنگوں کا ترجمان بننے کا بھی مشورہ دِیا۔‘‘ یہ سب وہ باتیں ہیں جو محترم نظامی صاحب اِس سے پہلے بھی اپنی تحریروں اور تقریروں میں کہتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دورِ حاضر کی مسلم لیگی قیادت اسلامی دُنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی حیثیت سے پاکستان کی طرف سے یہ کردار ادا کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے؟ نظریاتی سمر سکول کے تربیت و اسناد یافتہ طلبہ و طالبات جو 2002 ء میں 6 سال کے تھے اب 18 سال کے ہو گئے ہیں یعنی ووٹ دینے کے قابل اور جو اُس وقت13 سال کے تھے اب 25 سال کے ہیں یعنی قومی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے اہل۔ یہ سلسلہ تو نسل در نسل چلتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب اور اُن کے رُفقاء کو تادیر سلامت رکھے! تاکہ وہ پاکستان کی ہر نسل کی نظریاتی تربیت کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ آمِین!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024