آج کل شہلا رضا کی گونج ہر طرف ہے اور اعتزاز احسن نے کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن فرینڈلی نہیں ہے شائستہ ہے تو دھیان خود بخود ن لیگ کی ایم این اے شائستہ پرویز ملک کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ دونوں میاں بیوی ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ یہاں سے دھیان میاں نواز شریف کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ آج کل اللہ میاں کو راضی کرنے کے لئے عمرے پر پورے نو دنوں کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری انہی دنوں میں نو دنوں کے لئے امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ پہلی بار کسی سابق صدر کو سفارتی اور پھر صدارتی پروٹوکول دیا گیا ہے۔ اسی لئے میں انہیں ’’صدر‘‘ زرداری کہتا ہوں۔ وہ ایوان صدر میں تھے تو صدارتی نظام حکومت تھا۔ ممنون صدر کو حکومت سے دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف دستخط کرنے کو حکومت سمجھتے ہیں؟ یہی صدر مارشل لاء کے بعد بھی کچھ مدت تک ’’صدر‘‘ رہے۔ اس سے پہلے کوئلے کی دلالی (سیاست) میں دونوں نے اکٹھا افتتاح کیا تھا پھر نواز شریف کی سندھ میں دلچسپی بڑھ گئی اور صدر زرداری نے بادشاہ نہ بننے کا مشورہ نواز شریف کو دیا اور صوبائی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی۔ جس پر عمل شروع ہو گیا ہے؟ اپنے وزراء کو نواز شریف نے ’’صدر‘‘ زرداری کو جواب دینے سے منع کر دیا ہے۔ خواجہ صاحبان اور رانا صاحبان صرف قادری صاحب اور عمران کے لئے بیان بازی کر سکتے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف سے ’’لاجواب‘‘ ہونے کا خطرہ ہے۔ صدر زرداری نے جو بیان دیا ہے اس کے لئے پنجابی کی ایک ہی مثال کافی ہے۔ ’’ایک لوہار کی سو سنار کی‘‘ اب آپ سوچتے رہیں کہ یہ سرکاری پارٹی میں سنیارے کتنے ہیں۔ نااہل ہونے والے کرپٹ وزیراعظم گیلانی کے بیان کی بھی بازگشت ابھی ہے کہ شہلا رضا نے کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم نہ بن سکنے کی حسرت میں مبتلا مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ شہلا کی تصدیق یا تردید نہیں کی جا سکتی۔ مخدوم صاحب نے وزیر شذیر بن کے حسرت کو امید میں بدلنے کی کامیاب کوشش کی اور اپنی بیٹی کا کام کرا لیا۔
شہلا رضا کو پارٹی کے بچونگڑوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کے اتنی قریب ہیں کہ اسے دوبارہ قائم علی شاہ کی طرح پرانے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ نثار کھوڑو کی ترقی ملاحظہ کریں کہ وہ سپیکر اسمبلی کی صدارتی کرسی سے اتر کر وزیر تعلیم کے بنچ پر آ کے بیٹھ گئے ہیں۔ انہیں زیر تعلیم وزارت مبارک ہو اور مبارک ہو شہلا کو کہ وہ چاہتیں تو سینئر وزیر بن سکتی تھیں۔ اب ’’صدر‘‘ زرداری انہیں چیف منسٹر سندھ بنائیں گے تو پھر قائم علی شاہ کو کیا بنائیں گے؟ وہ قائم مقام علی شاہ بھی بن جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ مگر ان کا بدلہ انہوں نے نواز شریف سے ’’بیان‘‘ دے کے لیا ہے۔ اب سنا ہے وہ نواز شریف کی حکومت بچانے کے لئے امریکہ گئے ہیں۔ اس کے بعد ان کی اپنی باری ہے۔ تیسرے الیکشن تک مارشل لاء نہ لگنے کی ضمانت کی بات شہلا نے کی ہے۔ الیکشن تک کچھ نہ ہوا تو پھر سب کچھ ’’صدر‘‘ زرداری سنبھال لیں گے۔ یہی فرق ان میں اور نواز شریف میں ہے۔ الیکشن کے بعد شہباز شریف بھی ان کے لئے خاموش ہو گئے ہیں۔ لیکن ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست دیکھیں کہ وہ ابھی تک پنجاب نہیں گئے اور بلاول کو بھی نہیں جانے دیا۔ ظاہر ہے شہباز شریف سندھ میں تو انہیں سڑکوں پر نہیں گھسیٹ سکتے۔ جہاں تک بیرون ملک بنکوں سے ملک و قوم کا پیسہ واپس لانا ہے تو یہ کام ابھی ملتوی کر دیا گیا ہے کہ اس کے بعد لوگ اور جیالے کہیں گے کہ نواز شریف کا روپیہ بھی واپس لائو۔
بات اعتزاز کی فرینڈلی اپوزیشن اور شائستہ اپوزیشن سے شروع ہوئی تھی۔ اعتزاز نواز شریف کے دوست ہیں اور پھر ’’صدر‘‘ زرداری سے بھی دوستی کر لی۔ وکالت اور پارٹی سیاست ساتھ ساتھ۔ اب سینٹ میں بھی وہ دونوں کام کر رہے ہیں۔ اعتزاز اور اعزاز میں کتنا فرق ہے؟ تو ’’صدر‘‘ زرداری کے بقول شہلا رضا نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم واقعی فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہیں بلکہ ہم بیسٹ فرینڈلی اپوزیشن ہیں۔ نواز شریف نے ’’صدر‘‘ زرداری کی حکومت کو کیا بچانا تھا بچانا تو اس طرح ہوتا ہے جس کا عملی مظاہرہ امریکہ جا کے انہوں نے کر دکھایا ہے اور یہ بھی عملی مظاہرہ ہے کہ انہوں نے خورشید شاہ جیسے شریف آدمی کو اپوزیشن لیڈر بنایا ہے۔ جنرل کیانی کو انہوں نے ایکسٹنشن دی تھی اور نواز شریف نے مخالفت کی تھی جنرل کیانی نے وزیراعظم بننے سے پہلے رائے ونڈ حاضر ہو کے پیشگی مبارکباد دی مگر انہوں نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنا دیا۔ وہ نام کے شریف ہیں۔ جرنیلی کام سارے کے سارے جانتے ہیں۔ وہ 65ء کی جنگ ستمبر کے نشان حیدر کی نشانی ہیں۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے نام کا حصہ بھی شریف ہے مگر دونوں سیاست کرنا جانتے ہیں۔ اب تو شریف باقاعدہ ذات ہے۔ جیسے جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ وہ بلوچستان سے ہیں۔ بلوچ ان کی ذات ہے وہ جنرل راحیل شریف کے دوست ہیں اور اب نواز شریف کے بھی دوست ہیں۔
آج کل اپوزیشن لیڈر کی بہت پوزیشن ہوتی ہے۔ پوزیشن سے مراد حکومت ہے۔ پوزیشن اور اپوزیشن۔ آج کی جمہوریت کا یہ بھی کمال ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اور پارٹی کے لوگ پوزیشن میں ہیں اور اپوزیشن میں بھی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ پارٹی ٹکٹ میں تو کئی مزے ہوتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت یعنی ’’چپڑیاں تے دو دو‘‘۔ پہلی مثال مولانا فضل الرحمن کی ہے مگر اس سے بھی پہلے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں صدر جنرل ایوب کے سگے بھائی تھے۔ نئی بات مولانا صاحب سے شروع ہوئی ہے کہ پشاور میں وہ صوبائی حکومت کے سربراہ تھے۔ اپوزیشن لیڈر چودھری نثار کی ن لیگ کی حکومت پنجاب میں تھی مگر وہ خورشید شاہ سے کروڑ درجے بہتر اپوزیشن لیڈر تھے۔ یہ کمال ’’صدر‘‘ زرداری کا بھی تھا کہ انہوں نے چودھری صاحب کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی بنا دیا تھا۔ یہاں بھی وہ اپوزیشن لیڈر ہی تھے۔ خورشید شاہ سے بہتر تو حضرت مولانا تھے کہ وہ اپوزیشن لیڈر لگتے ہی نہ تھے مخدوم امین فہیم اکثریتی پارٹی پی پی پی کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر نہ بن سکے مگر ان کی دوستی جنرل مشرف سے قائم رہی بلکہ ’’قائم علی شاہ‘‘ رہی۔
اس وقت اصلی تے وڈے اپوزیشن لیڈر عمران خان ہیں اور وہ بنی گالا کے تفریحی محل سے خیبر پختون خوا حکومت چلا رہے ہیں۔ پرویز خٹک کی حکمرانی نہ سہی من مانی تو چل رہی ہے۔ اب عمران خان بھی ایک روایتی پاکستانی سیاستدان ہیں۔ وہ اپنی باری کے بھی منتظر ہیں کہتے ہیں کہ اگلی باری جلد آنے والی ہے۔ شہلا رضا سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ الیکشن ہوتا ہے تو کیا یہ تیسرا الیکشن ہو گا۔ اس کے بعد مارشل لاء نہ لگنے کی ضمانت کون دے گا۔ کیا یہ الیکشن بھی ویسا ہی ہو گا جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے۔
شائستہ پرویز ملک کی بات پھر درمیان میں رہ گئی ہے۔ وہ زبردست پارلیمنٹیرین ہیں۔ وہ نام کی شائستہ ہی نہیں شائستہ مزاج بھی ہیں۔ وہ اپوزیشن لیڈر بن جائیں کیونکہ ن لیگ کے کئی وزراء اپوزیشن لیڈروں سے بڑھ کر بیان بازی کرتے ہیں۔ وہ کچھ ایسا ہی بیان دیں جو شہلا رضا نے دیا ہے۔ میرے خیال میں انہیں قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر ہونا چاہئے تھا؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38