اتوار کے کالم کے لئے میں ہمیشہ پریشان سا ہو جاتا ہوں۔ موضوعات کی بھرمار ہوتی ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ دوستوں کے لئے اور پڑھنے والوں کے لئے یہ دن غنیمت ہوتا ہے۔ ہمارے لئے تو دنوں کی تخصیص نہیں ہے۔ ہر دن چھٹی کے دن کی طرح ہے اور تمام دن برابر ہیں۔ مصروفیات ہمارے لئے چھٹی کے دن کی تخصیص نہیں چھوڑتیں۔ ایک بہت معروف شعر بار بار یاد آتا ہے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
چھٹی کا نہ ملنا اور چھٹی کا نہ ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ہم تو چھٹی مناتے نہیں چھٹی بناتے ہیں۔ یورپ میں دو چھٹیاں ہوتی ہیں اور وہاں ڈٹ کر پانچ دن کام کرنے کا رواج ہے اور دو دن خوب چھٹی منانے کی بھی عادت ہے۔ ہم تو چھٹی والے دن بہت مصروف ہوتے ہیں۔ نکما رہنا بہت مصروفیت ہے۔ کام چور ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں شادیاں چھٹی کے دن ہوتی ہیں اور دوست یاروں کے لئے یہ خوشی کا دن ہوتا ہے کہ وہ دوستوں سے ملتے ہیں اور گپ لگاتے ہیں بلکہ گپ شپ لگاتے ہیں۔ گپ سے زیادہ شپ۔ ہماری باتیں فضول رٹی رٹائی پہلے سے کی ہوئی باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم رات دن گزارتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے کل گزارا تھا اور کل بھی اسی طرح گزاریں گے۔ ہمارے لئے گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم نے اپنے ذاتی ماضی اور مستقبل کو رلا ملا دیا ہے۔
جبکہ میرے آقا و مولا رسول کریم حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ اگر آج کا دن ہمارے کل کے دن سے بہتر نہیں ہے تو سمجھو کہ یہ دن تمہاری زندگی میں کبھی آیا ہی نہیں ہے اور ہماری حالت تو یہ ہے جو ہمارے بہت بڑے او بچے اور سیاست میں اپوزیشن میں رہ کر جہد مسلسل کرنے والے نواب زادہ نصراللہ خان تھے۔ جب نواب زادہ صاحب لندن میں بے نظیر بھٹو سے ملنے کے بعد جدہ میں نواز شریف سے ملنے تشریف لائے تو رئوف طاہر نے پوچھا کہ اس کوشش سے کوئی نتیجہ نکلے گا تو انہوں نے فرمایا کہ فوری طور پر تو کوئی امید نہیں ہے۔ انشااللہ کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ ورنہ ہم اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ ناکامی اور کامیابی ہمارے لئے کوئی زیادہ معانی نہیں رکھتی۔ پھر انہوں نے ایک زبردست شعر حسب معمول پڑھا۔ زندگی کی روٹین کا اس سے موثر اظہار نہیں ہو سکتا۔
اپنی قسمت میں جو لکھا ہے یہ ہارا ہوا دن
چلئے اک اور گزاریں گے گزارا ہوا دن
تھوڑی دیر پہلے ’’میانوالی کے لہوریے‘‘ قدیم دوست شاعر افضل عاجز سے بہت اچھی گفتگو ہوئی تو اس نے میانوالی میں گزرے ہوئے پرانے دنوں کو آواز دی کہ دوپہر کو بھوک لگتی تو ایک روٹی کے ساتھ ایک پیاز کو ہاتھوں میں لے کے مسلتے اور کھا لیتے۔ بڑا مزہ آتا۔ پیاز بڑی طاقتور سبزی ہے۔ مگر اب تو یہ بھی مہنگا ہے۔ صرف ان باتوں کو یاد کر کے ہی بڑا مزا آتا ہے۔ میرے دادا ایک سو سال سے زیادہ عمر کے ہو کے فوت ہوئے تھے۔ وہ دیسی گھی اور دودھ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ اب ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ڈالڈا گھی کے لئے دیسی گھی کے خلاف مہم چلائی اور کامیاب رہے مگر دل کی بیماریاں کم نہ ہوئیں۔ افضل عاجز دیہاتی دانش کے غریبانہ روپ کو اپنی شاعری میں بھی آزماتا رہتا ہے۔
اپنے عہد کے بہت معروف اور دوست شاعر جمیل الدین عالی کے تخیل کے ساتھ ساتھ ترنم کا مزا بھی سننے والوں کو بہت لطف دیتا ہے۔ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں مگر 90 سال کی عمر میں اپنی سالگرہ منانا تو جوانی کی یاد رکھنے والی بات ہے۔ جوانی یاد رکھنے والی چیز ہے مگر یہ یاد بڑھاپے میں کیوں آتی ہے۔ جب یہ بات ہوئی تو پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے پاس بیٹھے ہوئے استاد محترم شاعر اور انشائیہ نگار پروفیسر مشکور حسین یاد نے کہا کہ میں 92 برس کا ہوں مگر ابھی جوان ہوں۔ مشکور صاحب کے اسلوب زیست میں بوڑھے ہونے کا کوئی تاثر نہیں ہے۔ وہ ایسی مصروفیات اور سرگرمیوں کا بڑی بے تکلفی سے کھلے عام تذکرہ کرتے ہیں کہ جوان بھی شرما جاتے ہیں۔ اپنی بیوی یعنی منکوحہ کو محبوبہ کی طرح بیان کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ منکوحہ اور محبوبہ میں تفریق مٹا جائے ہیں تو آدمی فطرت کا شکر گزار بن جائے۔ بلکہ مشکور بن جائے۔ وہ خدا کے شکر گزار ہیں۔ بلکہ اپنی منکوحہ کے بھی شکر گزار ہیں۔ مشکور بھی ہیں۔ یہ ان کی طویل عمری کا راز ہے۔ وہاں موجود دو خواتین کے لئے ڈاکٹر مجاہد کامران نے بتایا کہ ان کی شاگرد ہیں۔ وہ وی سی ہوتے ہوئے آج بھی کلاس لیتے ہیں۔ وہ فطری طور پر ایک استاد ہیں۔ مجھے پروفیسر حمیدالدین خان یاد آتے ہیں اور ڈاکٹر محمد اجمل بھی۔ پروفیسر حمیداللہ خان پڑھے لکھے تھے اور منتظم اور بہادر بھی تھے۔ ڈاکٹر اجمل جیسا پڑھا لکھا آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے پرنسپل بھی تھے۔ جی سی لاہور کا پرنسپل ہونا جی سی یو کے وائس چانسلر سے بڑا آدمی ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر محمد اجمل کو اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ باقاعدہ اغوا کر کے مال روڈ پر لے گئے اور ایک تماشا بنایا تھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38