یہ کالم نہ الطاف حسین کے حق میں ہے نہ ان کے خلاف ہے اور ’’مرا رونا‘‘ کتنا بامعنی عنوان معروف شاعرہ رابعہ رحمان کے شعری مجموعے کا ہے۔ یہ شاعری الطاف اور ایم کیو ایم کے دوستوں کو پڑھنا چاہئے اللہ ان کی جائز مرادیں پوری کرے۔ الطاف سے میرا تعلق نہ سیاسی ہے نہ ذاتی ہے۔ ایک زمانے میں ایم کیو ایم کو واقعی قومی دھارے میں لانے کی تحریک چلی تھی۔ مجھے تو لگتا تھا کہ خلوص کے ساتھ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ فاروق ستار، اظہارالحسن، ڈاکٹر صغیر احمد، افتخار رندھاوا اور کئی دوسرے لوگ، افتخار رندھاوا پنجابی ہیں انہی کی معرفت سے میرا تعلق الطاف حسین سے اور ایم کیو ایم سے بنا تھا۔ طاہرہ یوسف اور رائو خالد کا بھی ایک رابطہ میرے ساتھ ہوتا رہتا تھا۔ مجھے حیدر عباس رضوی اچھا لگتا ہے مگر وہ کہاں ہے؟ بڑے اشعار اسے یاد ہیں وہ گفتگو اچھی کرتا ہے اور بھی بہت لوگ ہیں جو مجھے ملنے آئے تھے۔
میرے گھر کے سامنے مسلم ٹائون میں پنجاب ایم کیو ایم کا دفتر ہے۔ میں کئی بار وہاں گیا ہوں اور زندگی میں دو تین بار کراچی گیا ہوں وہاں میرے بڑے بھائی کے داماد بھی بریگیڈئر تھے ان کی دعوت پر بھی نہ گیا۔ مجھے فوج کے نوجوان اور افسران اچھے لگتے ہیں مگر میں نے کبھی بریگیڈئر صاحب کو وردی میں نہیں دیکھا۔ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی پر ہونا چاہئے اور پاک فوج کے لوگ ایسے ہی ہیں۔ مگر میرے بڑے بھائی کے داماد مختلف مزاج کے آدمی ہیں۔ اللہ انہیں خوش رکھے اور زیادہ امیر کبیر کرے۔ آمین۔ وہ بہت قابل آدمی ہیں۔ مجھے اپنی بھتیجی سعدیہ نیازی اور نواسی قندیل نیازی سے بڑی محبت ہے۔ اللہ اس گھر کو آباد شاد رکھے۔ یہ محبت ہے کہ الطاف حسین کے کالم میں ان کا ذکر آ گیا ہے۔
الطاف حسین سے کئی بار آدھے گھنٹے سے زیادہ ٹیلی فون پر بات ہوتی رہی۔ میں ان کے لئے بالکل پازیٹو ہو گیا تھا۔ میں نے کئی پروگرام کئے جس میں قومی دھارے کے کئی راستے ہموار بلکہ خوشگوار کئے۔
الطاف حسین کا سفر کہاں سے کہیں تک ہے۔ نہ کہاں کی کوئی حد ہے نہ کہیں کی کوئی منزل ہے۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ میں جینوئن بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سات سمندر پار بیٹھ کے الطاف نے کراچی پر حکومت کی ہے۔ وہ نیگٹو نہ ہوتا تو اس کی مثال لانا مشکل ہوتا۔ پاکستان کے خلاف کون پاکستان میں بات نہیں کرتا؟ پاکستان کے بارے میں میری بھی ایک رائے ہے۔ مگر یہ میرا وطن ہے اور وطن پر میں سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ دنیا میں کوئی بھی اپنے ملک کے خلاف بات نہیں کرتا مگر پاکستان میں جس کے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ بہت آسانی سے لیڈر بن جاتا ہے۔
محمود اچکزئی نواز شریف کے دوست ہیں۔ ان کا بھائی گورنر بلوچستان ہے۔ وہ قومی اسمبلی کے فلور پر وطن کے خلاف بات کرتے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے؟
رینجرز نے کراچی میں روشنیاں اور رونقیں کسی حد تک بحال کی ہیں مگر ایم کیو ایم کے خلاف کوئی خاص اقدام نہیں کیا جا رہا ہے۔ جس طرح کی باتیں جنرل بلال اکبر کے خلاف الطاف حسین نے کی ہیں وہ برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ جو معرکہ آرائیاں اور کامرانیاں رینجرز کو ملی تھیں۔ وہ ایک دن میں خاک ہو گئیں۔
جنرل راحیل شریف تو نومبر میں چلے جائیں گے تو پاک وطن کو کس کے حوالے کرکے جائیں گے۔ جنرل صاحب کے نام کے ساتھ بھی شریف آتا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ سب شریف ان کے جیسے ہوتے ہیں۔ پہلے جو معانی شریف آدمی کے ہوتے تھے اب بدل چکے ہیں۔ اب تو مریم بھی مریم نواز شریف ہے۔ وہ مریم صفدر نہیں ہے تو چودھری غفور سے پوچھوں گا کہ پیارے بھائی یہ بتائو کہ کیپٹن صفدر کون ہے۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ اس کے والد بھی نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ اس حوالے سے مریم نواز شریف کو بھی کبھی خیال نہیں آیا۔ میرے دل میں اس خاتون کے لئے ہمیشہ قدر منزلت رہی ہے۔
سنا ہے وہ نواز شریف کی سیاسی جانشین ہے۔ وہ شریف کے معانی بدل دے تو کمال ہو جائے۔ میں پھر الطاف حسین کے ذکر کو بھلا بیٹھا ہوں۔ ان سے میری گزارش ہے کہ وہ سچے پاکستانی بن جائیں ورنہ میرے خیال میں الطاف حسین کا زوال اور ایم کیو ایم کا خاتمہ ساتھ ساتھ ہو گا۔ میں ایم کیو ایم کی بات کر رہا ہوں جو الطاف حسین نے بنائی تھی۔
اب پاکستان میں فاروق ستار کو ایم کیو ایم (پاکستانی) کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ میرے خیال میں فاروق ستار میں ایک لیڈر کی صفات نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر کی صفات تو بالکل نہیں ہیں۔ یہاں تو کوئی الطاف حسین جیسا آدمی چاہئے اس جیسا تو کوئی نہیں ہو گا مگر کچھ تو ہو۔ یہ جو مصطفی کمال ہے اس میں بھی لیڈر کی صفات اور ایم کیو ایم کے لیڈر کی صفات نہیں ہیں۔ فاروق ستار اور مصطفی کمال ایک جیسے آدمی ہیں مجھے اظہارالحسن اور حیدر عباس رضوی میں امید نظر آتی ہے۔ ان دونوں سے بات کرو۔
معروف شاعرہ اور نوائے وقت کی ہماری کولیگ کالم نگار رابعہ رحمن بہت وقار اور اعتبار والی خاتون ہیں۔ وہ ایک بریگیڈئر کی اہلیہ ہیں۔ شاہد بابر ان کا نام ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اہلیہ اہل سے ہے۔ ہماری سب پڑھنے لکھنے والی خواتین کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ رابعہ کے مضامین پاک فوج کے ترجمان بہت زبردست میگزین ’’ہلال‘‘ میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ وطن سے ان کی وابستگی بے مثال ہے۔ آج کل ’’ہلال‘‘ کے ایڈیٹر معروف ادیب بہترین مزاح نگار یوسف عالمگیرین ہیں۔ انہوں نے اس میگزین کو ایک فوجی اور قومی میگزین بنا دیا ہے۔
رابعہ رحمان نے دو کتابیں وطن سے محبت کے حوالے سے لکھی ہیں۔ ’’سجدہ بے نیاز‘‘ اور ’’متاع وطن‘‘۔ ان کے تین شعری مجموعے ’’چاند ہتھیلی پہ‘‘ ’’نیند مجھے کب آئے گی‘‘ اور ’’مراد وفا‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ رابعہ رحمان کا ایک بہت خوبصورت شعر عرض ہے…؎
میں کبھی نہ ٹوٹنے والا حصار بن جائوں
تو میری ذات میں رہنے کا فیصلہ تو دے
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024