یہ ایک آزمودہ فارمولہ ہے، اسی ملک کے رہنے والوں نے کہا کہ ہمارے آبائوجداد پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے اور انہی لوگوں کو پاکستان میں عزت وتکریم سے نوازا گیا۔
ایک بدبخت نے تقسیم سے پہلے کہا کہ قائداعظم تو کافر اعظم ہے، وہ بھی ا سی ملک میں رہا، اس پر اعلی عدالت میں مقدمہ چلا اور جج نے پوچھا کہ آپ سے جو جملہ منسوب ہے، کیا آپ اس کااقرار کرتے ہیں، اس نے کہا کہ میںنے یہ بات ایک بھرے جلسے میںکی تھی تو ا س چھوٹے سے کمرے میںمجھے اسے دہرانے میں کیا قباحت محسوس ہو گی۔ ولی خان پر غداری کا مقدمہ چلا اور پھر اسے باعزت بری کر دیا گیا، بھٹو نے قومی اسمبلی کے ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کرنے والوں سے کہا کہ جو وہاںجائے گا، واپسی پر اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، پھر اس نے ایک اور فارمولا دیا، ادھر ہم اور ادھر تم، اس فارمولے کے تحت شیخ مجیب کو جیل سے رہا کر کے ایک خصوصی طیارے میں بٹھا کر ڈھاکہ بھیج دیا گیا جہاں وہ بنگلہ بندھو بن کر ڈھاکہ کے تخت حکومت پر براجمان ہو گیا، ادھر ہم والے… کو سویلین چیف مارشل لاا یڈمنسٹریٹر بنا کر مغربی پاکستان کے تخت پر متمکن کر دیا گیا۔ حافظ محمد سعید کو طعنہ دیاجاتا ہے کہ وہ ایک پارٹی کے خلاف قانون ہونے کے بعد نئی پارٹی بنا لیتا ہے تو کیا یہ کام ولی خاں نے نہیں کیا تھا، نیپ کی جگہ اے این پی کس نے بنائی اور کیا یہ کام پیپلز پارٹی نے نہیں کیا جو مشرف کے قانون کے ڈر سے پی پی پی کے بجائے پی پی پی پی بن کے اسمبلیوںمیں جا بیٹھی۔
پاکستان میںکونسی حکومت ہے جسے کرپشن جیسے سنگین الزامات کے تحت بر طرف نہیں کیا گیا مگر اگلی حکومت میں اسی کے لوگ پھر ٹانگیں پسار کر بیٹھ گئے۔ ق لیگ والے سارے ہی آب زمزم سے نہائے دھوئے تھے۔
تین لفظ ہیں، ایم کیو ایم، کبھی ان سے مہاجر قومی موومنٹ بنا لی جاتی ہے، کبھی متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے دیا جاتا ہے ، کبھی اسکی کوکھ سے پاک سر زمین پارٹی تخلیق کی جاتی ہے، اور اب فاروق ستار کہتے ہیں کہ انہوں نے لندن سے ناطہ توڑ لیا، بھلے ٹھیک کہا مگر یہ جو کراچی میں تیس برس سے خون بہہ رہا ہے ، بھتہ خوری ہو رہی ہے، را کی دلالی ہو رہی ہے، کیا یہ سب معاف ہو گیا، قرضے تو معاف ہوتے دیکھے، اب سنگین جرائم بھی معاف، یہ کس کو اختیار حاصل ہے کہ کبھی وہ کسی کو غدار، قاتل، بھتہ خور کہے اور اگلے سانس میںانہیں فرشتہ سمجھ لیا جائے تو نواز شریف کے ایک سابق دور میںا ور بے نظیرکے دور میں فوجی آپریشن کن جنات کے خلاف ہوا، کیا وہ اس ملک کے باسی نہ تھے، پاکستان کے شناختی کارڈ ہولڈر نہ تھے۔
ویسے کراچی والے یہ پوچھنے میںبھی حق بجانب ہیں کہ لاہور میں رینجرز کیوںنہیںگھستے، کیا وہاںگلشن پارک میں بچوں کا قیمہ نہیں بنا، کیاوہاں مناواں پر دو مرتبہ حملہ نہیں ہوا، کیا وہاں ایف آئی اے پر دو مرتبہ حملہ نہیں ہوا، کیا وہاں نیول کالج پر حملہ نہیں ہوا، کیا وہاں آئی ا یس آئی کے ہیڈکوراٹر پر حملہ نہیں ہوا، کیا داتا دربار کو خون سے غسل نہیں دیا گیا اور کیا واہگہ کی پریڈ میں تماشائیوں کے چیتھڑے نہیں اڑے، کیا جاتی امرا کے نواحی گائوںپنڈ ارائیاں میں دہشت گردوں اور ایم آ ٓئی کے مابین مقابلہ نہیں ہوا۔ کیا شہر کی فوڈ اسٹریٹ میں دہشت گردی نہیں ہوتی رہی، اس سب کے باوجود لاہور کی سڑکوں پر نہ فوج نظر آتی ہے، نہ رینجرز کی گاڑیاں، نہ کبھی صوبائی ایکشن پلان کمیٹی کا اجلاس ہوا، نہ وزیراعظم نے یہاں ڈیرے ڈالے، نہ یہاں آرمی چیف، سکیورٹی ایڈوائزر اور آئی ا یس آئی چیف کو طلب کر کے حالات کی درستی پر کوئی صلاح مشورہ ہوا۔ سندھ کا تو چیف منسٹر بھی بدل دیا گیا۔ اسی تخت لاہور کی سرحد پر بھارتی فوج اشتعال انگیز گولہ باری بھی کرتی رہتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ تنہا فوج اور رینجرز حالات پر کیسے قابو پا سکتے ہیں، اکہتر میں مشرقی پاکستا ن میں فوج کے شانہ بشانہ قربانیاں دینے کے لئے البدر اور الشمس کے نوجوان موجود تھے مگر آج تو الطاف حسین سے لے کر اچکزئی تک ہر کوئی سکیورٹی اداروں کے خلاف تعصب ابھار رہا ہے، زرداری نے جی بھر کے فوج کے چیف کو للکارا مگر اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا اور اسے دوبئی فرار ہونے کا موقع دے دیا گیا۔ مگر اس کی پارٹی جوں کی توں دندنا رہی ہے اور اس کے فرزندعالی مقام کے وہی ناز نخرے ہیں۔
کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ بھارت نے اپنے پاکستانی ایجنٹوںکے ذریعے فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کو اندرونی محاذوں پر بری طرح الجھا دیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے جبر کا سلسلہ بڑھ گیا ہے، بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت کو نئے نشانے کے طور پر مودی نے چن لیا ہے۔ پاک فوج ایک چومکھی جنگ لڑ رہی ہے مگر ظاہر ہے اس کی طاقت لا محدود نہیں اور سیاسی جماعتیں اس کی ہم نوا بھی نہیں۔ تو انجام گلستاں کیا ہو گا، اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں۔ مگر خدا خیر کرے، دعا تو یہ ہے مگر یہ دعائوں کی قبولیت کا وقت بھی نہیں ہے۔
یہ یحییٰ خاںکا پاکستان نہیں۔ نہ یہ ابو عبداللہ کا اسپین ہے، نہ بہادر شاہ ظفر کا ہندوستان،اور نہ یہ چنگیز خان کے سامنے لرزتا بغداد مگر اندیشے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔ اس لئے کہ ہمارے اندر اصلاح کی خواہش مر گئی ہے، ہم حالات کے جبر تلے دب کر رہ گئے ہیں، ہم گالیاں سنتے ہیں، پھر معافی دیتے ہیں اور پھر ہلاکوخانی، چنگیزی، مودی طاقتوں کو وہی گل چھّرے اڑانے کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں۔ کمپرومائز نے ہماری مزاحمت کی صلاحیت چھین لی ہے۔ انجام گلستاں کیا ہو گا، اس کا اندازہ لگانے کے لئے کس قدرمغز کھپائی کی ضرورت ہے، اپنا اپنا حساب لگا لیجئے۔