خبر ہے کہ ’’ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے ناقص کارکردگی پر ایف آئی اے حُکّام کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے انہیں کہا کہ ’’ اگر بڑے چوروںکو نہیں پکڑا جاتا تو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اپنا عہدہ چھوڑ دیں!‘‘ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر 90 دن میں تمام مالی سکینڈلز کی تحقیقات مکمل نہ کی گئی تو مَیں وفاقی کابینہ میں یہ تجویز پیش کروں گا کہ ’’جِس طرح نیب اور ٹریفک پولیس کو " Recovery" پر انعام کے طور پر مخصوص حِصّہ مِلتا ہے، اُسی طرح ایف آئی اے کو بھی حِصّہ دِیا جائے اور اگر ایف آئی اے سے عوام کو کوئی فائدہ نہ ہُوا تو ، مَیں سفارش کروں گا کہ یہ محکمہ ہی بند کردِیا جائے‘‘۔
ایف آئی اے کی نِجّکاری
خبر میں ایف آئی اے کے ڈی جی صاحب کا نام شائع نہیں کِیا گیا ۔ وفاقی وزیرِ کے مقابلے میں کسی بھی ڈی جی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن اختیارات کی بھی کوئی حدّ ہوتی ہے ، ممکن ہے "Rules of Business" کے تحت بڑے چوروں کو پکڑنے کی ذمہ داری وفاقی وزیر داخلہ صاحب کی ہواور جب ڈی جی صاحب کسی بڑے چور کو پکڑنے کے لئے جاتے ہوں گے تو وہ بڑا چور اُنہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہُوئے کہہ دیتا ہوگا کہ"Mind your own Business" اگر مسلم لیگ (ن) کی ایک سال اور دس ماہ کی حکومت میں بڑے چوروں کو نہیں پکڑا جا سکاتو آئندہ 90 دِن میں اُن کا کِیا بگاڑ لیا جائے گا ؟
میری چودھری صاحب سے دُرخواست ہے کہ ایف آئی اے کا خاتمہ نہ کریں کہ اس طرح ہزاروں افسراں اور اہلکاروں کے اہل خانہ بھوکوں مر جائیں گے، ہاں! اگر ایف آئی اے کی کارکردگی کوبہتر بنانا ہو تو اُس کی نِجّکاری کردِی جائے اور جو کوئی افسر اور اہلکار چُوں چرا کرے تو اُس سے "Golden Shake Hand" کرلِیا جائے ۔ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں ۔ چودھری نثار علی خان اگر ’’ شہباز پاکستان‘‘ میاں شہباز شریف کا’’ مِنّت ترلا‘‘ کرلیں تو وہ مدد کرسکتے ہیں۔
’’ایم کیو ایم کو جِیت مُبارک‘‘!
عام طور پر حزبِ اختلاف کا ہر لیڈر جب کسی شہر میں بِیس تِیس یا چالِیس پچاس ہزار لوگوں سے خطاب کر رہا ہوتا ہے تو وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ ’’ آج کا جلسئہ عام حکمرانوں کے خلاف 20 کروڑ عوام کی طرف سے ایک ریفرنڈم ہے ۔ اب انہیں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر چلے جانا چاہئیے‘‘۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 246 کے ضمنی انتخاب میں ماضی کی دونوں قومی پارٹیوںپاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حِصّہ نہیں لِیا۔ دراصل دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کو اندازہ تھا کہ اُن کا امیدوار ہار جائے گا ‘‘۔ کم از کم ’’ مرسُوں مرسُوں سِندھ نہ ڈیسُوں‘‘ کا نعرہ لگانے والی پارٹی کو تو تھا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ’’ قائدِ عوام ‘‘ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور دُخترِ مشرق‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی رُوحوں کو کتنی تکلیف ہُوئی ہوگی؟۔
1970ء کے عام انتخابات میں جناب ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ اور لاہور سمیت چار شہروں سے جِِیت گئے تھے لیکن وہ ڈیرہ اسمعٰیل خان کی نشست سے مولانا مفتی محمود سے ہار گئے تھے ۔ ہارنے کے باوجود اُن کی سیاست پر کوئی دھبا نہیں لگا اور نہ ہی انہوں نے "Mind" کِیا۔ انتخابات میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ جناب عمران خان کا معاملہ مختلف ہے۔ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹوں کے لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی تھی لیکن اُسے قومی اسمبلی میں صِرف 34 نشتیں ملیں ۔ اُن انتخابات میں دھاندلی ہُوئی تھی یا نہیں؟ اِس کا فیصلہ تو جوڈیشل کمِشن ہی کرے گا ۔ رینجرز کی نگرانی میں ہونے والے این اے 246 کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید نے 95 ہزار 644ووٹ حاصل کئے۔
ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ ’’ تُم کتنے بھائی ہو؟‘‘ دوسرے نے جواب دِیا کہ ’’دو!‘‘ پہلے نے کہا ’’ اگر تم آٹھ بھائی بھی ہوتے تو میرا کیا کرلیتے؟‘‘ قومی اخبارات کی شہ سُرخی ہے کہ’’ ایم کیو ایم نے مُخالفِین کو شکستِ فاش دے دی‘‘۔ علامہ اقبالؒ نے اپنا یہ مِصرع…؎
’’ تُو نے یہ کیا غضب کِیا مُجھ کو بھی فاش کردِیا‘‘
کسی اور معنوں میں کہا تھا لیکن موجودہ ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم نے دونوں مخالف جماعتوں کی خواہشات کو ’’ پاش‘‘ بلکہ ’’پاش پاش‘‘ کردِیا ہے البتہ جناب الطاف حسین کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ’’ کراچی کا ضمنی انتخاب جیتنے سے ایم کیو ایم پر لگائے گئے تمام داغ دُھل گئے ہیں‘‘۔ الطاف بھائی ! اِن داغوں کی لندن اور پاکستان کی عدالتوں میں "Laundering" ہوگی تو پتہ چلے گا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار جناب عمران اسمعٰیل نے اپنی ہار تسلیم کرلی اچھا کِیا۔ لیکن انہوں نے 24 ہزار 821 ووٹ لے کر ایم کیو ایم کے مضبوط سیاسی قلعہ میں دراڑ ڈال دی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے جناب راشد ندیم نے صِرف 9 ہزار 56 ووٹ حاصل کئے جبکہ جناب ِسراج الحق نے دعوی کِیا تھا کہ ’’ جماعتِ اسلامی کا امیدوار جِیت گیا تو جنابِ الطاف حسین کراچی کی سڑکوں پر سلامتی سے موٹر سائیکل پر گھوم پھر سکیں گے‘‘۔
جناب عمران خان نے اپنی والدہ کی پاکستان کی طرف ہجرت کا تذکرہ کر کے خود کو ’’آدھا مہاجر‘‘ کہا ۔ یہ اُن کی کمزوری تھی ۔ جواب میں جنابِ الطاف حسین نے کہا کہ ’’عمران بھائی! اب ہم آپ کو پورا مہاجر سمجھتے ہیں‘‘۔ جناب سراج الحق نے بھی مولانا مودودی مرحوم، پروفیسر غفور احمد مرحوم اور ماشاء اللہ زندہ و سلامت ’’جہاد و قِتال فی سبِیل اللہ کے علمبردار سیّد منور حسین کی ہجرت کا تذکرہ بھی کِیا لیکن…؎
’’ مرے کام کُچھ نہ آیایہ کمالِ نَے نوازی‘‘
مہاجر قوم / قومیت کا نعرہ گمراہ کُن ہے ۔ جناب الطاف حسین ایم کیو ایم کو ’’پاکستان بنانے والوں کی اُولاد کی جماعت کہتے ہیں‘‘۔ پھر انہوں نے پاکستان بنانے والوں کی قبروں کو چھوڑکر ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم سے وفاداری کا حلف اُٹھا کر اپنے بزرگوں کی رُوحوں کو تکلیف کیوں دی؟
یہ درست ہے کہ ’’ سکیورٹی کے وسیع اور محفوظ ترین انتظامات کے باعث ضمنی انتخاب ہوگیا۔ جماعتِ اسلامی کا امیدوار اگر پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوارکے حق میں دستبردار ہو بھی جاتا ہے تو بھی کچھ فرق نہ پڑتا۔’’ نوائے وقت ‘‘ کراچی کی لیڈی رپورٹر غزالہ فصِیح کی خبر کے مطابق’’ضمنی انتخاب میں 93 سالہ محترمہ خورشید بیگم اور 90 سالہ جناب عِشرت علوی نے بھی ووٹ ڈالا۔ دونوں بزرگوں کی خدمت میں سلامِ عقِیدت۔ جہاں تک جناب الطاف حسین کا گورنر سندھ ڈاکٹر عِشرت اُلعباد سے اعلانِ لا تعلقی ہے وہ الطاف بھائی نے اُن’’ کی ’’نوکری پکّی کرنے کے لئے ‘‘کِیا ہے۔ جس ادارے نے ڈاکٹر صاحب کو گورنر بنوایا تھا اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ…؎
’’ پتّا بھی نہیں ہِلتا بغیر اُس کی رضا کے‘‘
سپورٹس مَین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو جِِیت مبارک!!! کہنے میں کیا حرج ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024