پاک چین دوستی کے اقتصادی راہداری روٹ نے دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ ہر طرف چیں چیں چاں چاں ہو رہی ہے۔ دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور غداران وطن نئی سازشیں بننے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ گھر کے چراغ ہیں۔ کرسی کی ہوس نے ملک کو کبھی اٹھنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ پاک چین معاہدے اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں مگر حریفوں اور دشمنوں سے یہ معاہدے ہضم نہیں ہو پارہے ۔بلا شبہ پاکستان ایک کرپٹ ملک ہے،یہی وجہ ہے کہ 46 ارب کی سرمایہ کاری چین نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ،الاما شا ءاللہ پاکستان کے کرپٹ اور نا اہل سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں سے بچا کر ہی کچھ بنایا جا سکے گا ۔ پرانے پاپیوں کے پیٹ کہاں بھرتے ہیں۔پاکستان کے دو سو ارب ڈالر باہر کے بینکوں میں رکھے ہیں اور سادہ پاکستانی چین کے چھیالیس ارب ڈالروں پر شادیانے بجا رہے ہیں۔ چین نے پاکستان کو ایک نئی روشنی دی ہے لیکن کراچی کی روشنیاں بحال ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا کراچی میں وہی نتیجہ نکلا جس کی ”قوی“ امید تھی۔ ایم کیو ایم کا مافیا توڑنے کے لیے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں اتحاد ناگزیر تھا مگر ان لوگوں کو خوش فہمی نے ہروایا۔ حسب توقع جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ووٹ تقسیم ہو گئے اور ایم کیو ایم کی طاقت مزید مغرور ہو گئی۔ تحریک انصاف کو کراچی الیکشن سے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ جلسوں کے حجم سے ووٹوں کا وزن نہیں تولا جا سکتا۔ تحریک انصاف کے ساتھ ہمیشہ دھاندلی ہو جاتی ہے اور جماعت اسلامی ہمیشہ خوش فہمی کی نذر ہو جاتی ہے۔ اب ریاض چلتے ہیں جہاں ہمارے قائدین روٹھوں کو منانے پہنچ گئے۔ اسلام آباد پارلیمنٹ کا صاف جواب بادشاہوں کو پسند نہیں آیا، اوپر سے وزیر داخلہ چودھری نثار کے بیان نے بادشاہوں کو مزید اپ سیٹ کر دیا۔ پاکستانیوں کو قائل کرنے کے لیے امام کعبہ خود تشریف لائے ہیں اور سیاسی کشیدگی ختم کرنے کے لیے پاکستان کی قیادت بنفس نفیس ریاض پہنچی ہے۔ سعودی عرب جو پہلے حجاز مقدس کہلاتا تھا،آل سعود نے اس کا نام ”سعودی عرب“ رکھ دیا۔ ایک امریکی مسلمان نے سوال اٹھایا کہ حجاز مقدس کا نام تبدیل کرنا مقصود ہوتا تو حضور کے دور میں ہی اس کا نام ”محمد عرب“ رکھا جاتا۔ مکہ کا علاقہ حجاز اور مدینہ ”یثرب“ کہلاتا تھا جو ہجرت نبوی کے بعد ”مدینہ طیبہ“ کہلانے لگا۔ یمن اور سعودی عرب کا معاملہ حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے جس میں چھوٹے بھائی ”پاکستان“ کی بڑے بھائی کی حمایت و تعاون کو ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ حضور اقدسﷺ یمن کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ یمن ہمیشہ سے حجاز مقدس کا خاص حصہ سمجھا جاتا تھا۔ واحد زمینی بارڈر جو سعودی عرب سے ملتا ہے وہ یمن ہے، باقی چاروں اطراف پانی ہے۔ یمن سعودی عرب کے لیے جغرافیائی و سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب اور یمن کشیدگی کا شکار ہیں مگر اس سے پاکستان کی ”پرو سعودی“ جماعتیں بے نقاب ہو ئی ہیں۔ پاکستانیوں کو مذہبی طور پر ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے، مسلمانوں کی مکہ و مدینہ سے محبت کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ جذباتی تحریکوں اور خطابات سے ”نمک حلال“ کیا جاتا ہے۔ خاکم بدہن جس روز مکہ و مدینہ کو خطرہ لاحق ہوا، اس دن سب سے پہلے امریکہ کے مسلمان سڑکوں پر نکلیں گے اور یہ بات امریکی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ امریکہ کے مسلمان پر امن شہری ہیں مگر حجاز مقدسہ کے خلاف انگلی بھی اٹھی تو یہ لوگ پورے ملک کو نائن الیون بنا دیں گے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یمن میں باغی گروپ کی پیش قدمی کو روکنے میں سعودی عرب اگر ناکام ہوتا ہے تو یہ ملک تمام خلیجی ملکوں کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ یمن عالم عرب میں غریب ترین ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ حوثی باغیوں کو بیرونی سر پرستی حاصل ہے جس نے یمن کو خانہ جنگی میں جھونک دیا ہے۔ اس جنگ کو دیرینہ علاقائی دشمنی بھی سمجھا جا رہاہے۔ امریکہ نے برسوں پہلے یمن میں القاعدہ کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا۔ ایک طرف باغی حوثی گروپ اور دوسری طرف القاعدہ بیرونی سازش کو خلیجی ممالک میں پھیلانے کا ناپاک ارادہ رکھتے ہیں۔ یمن کی بڑی تعداد جب تک باغیوں کے خلاف اٹھ کھڑی نہیں ہو گی یمن کو پر امن بنانے کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ خلیجی ممالک میں انتہا پسند تنظیموں کو جب تک ”بیرونی سرپرستی“ حاصل ہے، بدامنی کو روکنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سعودی حکومت ”بیرونی سر پرستی“ کی دوغلی پالیسی کو سمجھ جائے اور صرف اپنا گھر نہیں بلکہ تمام مسلمان ممالک کو اس گھناﺅنی سازش سے بچانے کی کوشش کرے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024