مجھے یہی دھڑکا تھا کہ بات پھیلے گی تو آزادیٔ صحافت کو دامن گیر ہوتی نظر آئے گی، سو اب یہی نقشہ بنتا نظر آتا ہے۔ عزیزم حامد میر کو گولیوں کا نشانہ کس نے بنایا اور اس واردات کے کیا مقاصد تھے، سب کچھ پس منظر میں چلا گیا۔ پتہ نہیں حامد میر کو انصاف ملتا ہے یا نہیں مگر میڈیا کی آزادی کے سر پر خطرات ضرور منڈلانے لگے ہیں، اس لئے اب دیگر قومی، ریاستی اداروں کی طرح میڈیا کو بھی اپنے وقار، آبرو اور آزادی کے تحفظ کی خاطر ویسے ہی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جیسا بعض الزامات کی زد میں آنے والے دوسرے اداروں کی جانب سے سخت ردعمل کے اظہار کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ گذشتہ روز سی پی این ای نے بھی اپنے لاہور میں منعقدہ اجلاس میں میڈیا کی آزادی کو لاحق ہونے والے خطرات کو بھانپ کر جہاں ایک میڈیا گروپ کے نیوز چینل پر پابندی کے ممکنہ اقدامات کو ناروا قرار دیا ہے وہیں تمام صحافتی تنظیموں سے اس نازک موقع پر یکجہت ہونے کی بھی اپیل کی ہے۔ مگر یہاں تو اتحاد و یکجہتی کی فضا بنانے کے بجائے جوتیوں میں ڈال بانٹنے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ماحول میں یہ کون سوچے گا کہ آج کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر جو بے لاگ اور شفاف انکوائری کا متقاضی ہے، حکومت کے ہاتھ نکیل آ گئی تو اس کا دائرہ کسی ایک میڈیا گروپ تک محدود نہیں رہے گا اور کسی بھی میڈیا گروپ کو کوئی بھی جواز بنا کر نکیل ڈالنے کی روایت چل نکلے گی۔
ذرا کھوج تو لگائیے کہ یہ کیا پالیسی ہے جس میں ایک جانب اعلیٰ حکومتی سطح پر حامد میر اور اس کے میڈیا گروپ کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وزیراعظم کو دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید اور زخمی ہونے والے دوسرے شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں اور دوسرے میڈیا گروپس کے ساتھ ان کے پاس جا کر ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کی تو پہلے کبھی توفیق نہیں ہوئی تھی مگر وہ حامد میر کی عیادت کے لئے کراچی کے ہسپتال جا پہنچے اور وہاں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے آزادیٔ صحافت پر کوئی حرف نہ آنے دینے کے عزم کا اظہار بھی کر دیا۔ کئی وفاقی وزراء اور حکمران مسلم لیگ کے عہدیداروں کو بھی عیادت کی سعادت حاصل ہو گئی اور یہ سعادت عین اس وقت حاصل ہوئی جب حامد میر پر دہشت گردی کے حوالے سے اس کے میڈیا گروپ کے پلیٹ فارم پر ایک قومی ادارے کو براہِ راست گردن زدنی ٹھہرایا جا رہا تھا جس کے سخت ردعمل میں اس میڈیا گروپ کو لپیٹتے ہوئے متذکرہ قومی ادارے کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ پھر اس ماحول میں اعلیٰ حکومتی عہدے دارروں کا حامد میر اور اس کے میڈیا گروپ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا کس کو کیا پیغام دینا مقصود تھا ؟اس تناظر میں یار لوگوں نے مشرف غداری کیس کے حوالے سے حکومت اور عسکری قیادتوں میں پیدا ہونے والی تلخیوں اور تنائو، جس کا خود وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے ایک بیان میں یہ اعتراف کیا، کی کڑیاں بھی حامد میر اور اس کے میڈیا گروپ کے ساتھ حکومتی یکجہتی کے اظہار کے ساتھ ملاتے ہوئے اصل حکومتی ارادوں کے تصورات باندھنا شروع کر دئیے اور پھر اس فضا میں ہی وزارت دفاع کی جانب سے متعلقہ میڈیا گروپ کے نیوز چینل کے لائسنس کی منسوخی کے لئے پیمرا کو درخواست بھجوا دی گئی تو اس حکومتی پالیسی پر ’’سجّی‘‘ دکھا کر ’کھبّی‘‘ مارنے والی مثال صادق آنے لگی۔ بھئی آپ جس میڈیا گروپ کے حوالے سے آزادیٔ صحافت پر کوئی زد نہ پڑنے دینے کے دعوے فرما رہے ہیں، اسی میڈیا گروپ کے نیوز چینل کو بند کرنے کی خود ہی درخواست دے رہے ہیں تو پھر آپ کے اصل عزائم کا کھوج تو لگانا پڑے گا۔ پھر اس سے یہ نتیجہ کیوں اخذ نہیں ہو گا کہ کسی آمر، کسی حاکم کو (چاہے وہ باوردی ہو یا سول) میڈیا کی آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اپنی من مانیوں کی راہ میں حائل اس ’’روڑے‘‘ کو ٹھوکر مار کر ہٹانے کی کوشش کرنا اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ نوائے وقت گروپ کو تو اس حاکمانہ سوچ کا ہر دور میں سامنا کرنا پڑا ہے مگر اس نے کبھی صحافت کی آزادی پر کمپرومائز نہیں کیا۔ ایوب سے مشرف کی جرنیلی آمریت تک اور بھٹو سے نواز شریف کی آمرانہ سول حکمرانی تک نوائے وقت گروپ کو جن جبری حکومتی ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا وہ شاید ہی کسی دوسرے میڈیا گروپ کے حصے میں آئے ہوں مگر مرحوم حمید نظامی سے لیجنڈ مجید نظامی تک نوائے وقت کے ’’ماٹو‘‘ ’’بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے‘‘ پر حرف نہیں آنے دیا گیا۔ یہی نہیں، کسی دوسرے میڈیا گروپ کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائیوں کی بھی نوائے وقت گروپ نے آزادیٔ صحافت کے تحفظ کے تقاضے نبھاتے ہوئے مزاحمت کی، یہ الگ بات ہے کہ دوسرے میڈیا گروپس نے نوائے وقت گروپ کے ساتھ کبھی ایسی یکجہتی کا اظہار نہیں کیا، مگر آج بھی ایک میڈیا گروپ پر اس کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے افتاد ٹوٹتی نظر آ رہی ہے تو نوائے وقت گروپ اس پر کسی قسم کی پابندیوں کا مخالف ہے، صرف اس بنیاد پر کہ آزادیٔ صحافت کا پرچم سربلند رکھنا نوائے وقت گروپ کا طرۂ امتیاز ہے۔
بات حامد میر اور اس کے میڈیا گروپ کے معاملہ میں حکومت کی دوعملی کی ہو رہی تھی جو اس کی اس پالیسی سے ہی عیاں ہے کہ ایک جانب تو حامد میر پر دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے تین فاضل ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمشن تشکیل دے دیا گیا جس نے ابھی اپنی کارروائی کا آغاز بھی نہیں کیا مگر انہی قدموں پر دوسرا فیصلہ وزارتِ دفاع کی جانب سے متذکرہ میڈیا گروپ کے چینل کی بندش کے لئے پیمرا میں درخواست دائر کرنے کا کر لیا گیا۔ کیا جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے بعد حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ کوئی دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے اپنے ہی قائم کردہ عدالتی کمشن کی فائینڈنگ کا انتظار کر لیا جاتا، ممکن ہے اس فائینڈنگ کی روشنی میں پیمرا سے رجوع کرنے کی نوبت ہی نہ آتی یا فائینڈنگ میں متذکرہ میڈیا گروپ پر افواجِ پاکستان اور اس سے منسلک کسی دوسرے قومی ادارے کے خلاف منفی پراپیگنڈے کے الزام کی تصدیق ہوتی، تو اس کے لئے حکومتی کارروائی کا تقاضہ پیمرا کے بجائے مشرف جیسی عدالتی کارروائی والا بن جاتا۔ اس کے لئے کیا ضروری نہیں تھا کہ ازخود کوئی یکطرفہ فیصلہ کرنے کے بجائے جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کی بنیاد پر قانون کی عملداری کو راستہ دیا جاتا تاکہ کسی حکومتی اقدام پر میڈیا کی آزادی پر قدغنوں کی منصوبہ بندی کا شائبہ بھی نہ پیدا ہو۔ شاید حکومت ایک تیر سے بیک وقت دو شکار کرنا چاہتی ہے مگر ایسی حکمت والی حکومت کو بالآخر خود ہی اپنی چالاکیوں کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ حکومت اپنی موجودہ پالیسی سے کیا فائدہ لینا چاہتی ہے، وہ اس کے دل میں سمایا کوئی سودا ہو گا مگر حکومتی اکابرین کو خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ میڈیا کی آزادی پر کسی جرنیلی آمریت کا کوئی ہتھوڑا کارگر نہیں ہو سکا تو ان سول حکمرانوں کی کوئی سازش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جن کے اپنے پائوں کے نیچے سے پَل پَل زمین سرکتی نظر آتی ہے۔ ادھر حامد میر کے میڈیا نے بھی ات چکی ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38