اُستاد مصحفی نے کہا تھا کہ
”آوارگانِ عشق کو منزل کی کیا خبر؟
منہ اُٹھ گیا جدھر کو، اُدھر ہی چلے گئے!“
لیکن 550 کتابوں کے مصنف و مو¿لف علامہ طاہر القادری تو آوارگانِ عشق میں شمار نہیں ہوتے۔ وہ تو ”قائد انقلاب“ کہلاتے ہیں اور ماﺅ تنگ، لینن اور سٹالن کے ہم پلہ بھی لیکن یہ کیا ہوا کہ موصوف نے اپنا انقلاب اچانک ملتوی کر دیا۔ اُن کے منہ بولے بھائی عمران خان بھی حیران خان کی صورت بنائے ہوئے کہہ رہے ہیں ”دراصل میرے اور قادری صاحب کے مقاصد مختلف ہیں۔“ ظاہر ہے کہ عمران خان ”نیا پاکستان“ بنانا چاہتے ہیں اور علامہ القادری پرانے پاکستان میں ہی انقلاب لانا چاہتے تھے ہیں۔ عمران خان کا تبصرہ یہ ہے کہ ”مجھے اسلام آباد میں قادری صاحب کے دھرنا ختم کرنے سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔“ اُدھر علامہ القادری کے انقلابیوں کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور سے ”پا موڈھے تے کھیسی تے ٹُر چلّے پردیسی“ کی شکلیں بنائے ”گھرو گھری“ جانے کے مناظر نے ....
”تھی جہاں شمع وہاں خاک ہے پروانوں کی“
کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ مختلف نیوز چینلوں پر علامہ القادری کے انقلابی آئی ڈی پیز کہہ رہے تھے کہ ”اب ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں؟“ حالانکہ اِس چھوٹی سی بات پر خود اُن کے ”قائد انقلاب“ نے بھی غور نہیں کیا تھا۔ دراصل القادری صاحب کا شعری ذوق کچھ کم کم ہے۔ میر تقی میر نے نہ جانے اپنے دور کے کس ”قائد انقلاب“ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ
”جائے عبرت ہے خاکدانِ جہاں!
تُو کہاں، منہ اٹھائے جاتا ہے؟“
علامہ القادری پہلی بار دسمبر 2012ءمیں اور دوسری بار جون 2014ءمیں منہ اُٹھائے پاکستان میں انقلاب لانے کے لئے تشریف لائے لیکن دوسری باری بھی انقلاب علامہ صاحب کو غُچّا دے گیا۔ حضرت آتش کے اس شعر میں اگر ”آفتاب کے بجائے انقلاب جڑ دیا جائے تو کچھ یوں ہو گا
”اے انقلابِ حشر آنکھوں سے گر گیا تُو
منہ پھیرتا جدھر سے پھر میں اُدھر نہ کرتا“
علامہ القادری نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وفاق اور پنجاب کے کئی وزراءسمیت لاکھوں دوسرے ”کرپٹ لوگوں“ کو خود اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن نہ چانے کس ”تارا مسیح“ کی نظر لگ گئی اور علامہ القادری یہ بھی نہیں کہہ سکے کہ
”نظر لاگی پیاری سانوریا تمہاری!“
قدیم ہندوستان کے ”سنہری دور والے مہا راجا اشوکِ اعظم نے طیش میں آ کر بھرے دربار میں ایک شخص کو تلوار سے وار کر کے اس کی گردن تن سے جدا کر دی تھی۔ ایک منہ چڑھے درباری نے جان کی امان پا کر کہا کہ ”مہاراج! جو کام آپ نے کیا ہے وہ تو آپ کے ایک اشارے پر آپ کا جلاد بھی کر سکتا تھا؟“ اب یہ افواہیں پھیل رہی ہیں کہ ”شریف برادران سے علامہ طاہرالقادری کی ایک بار "Deal'' ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے مسلم لیگی وزراءاور دوسرے اور تیسرے درجے کے قائدین کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ "Deal Allama Honourably"
جب علامہ طاہرالقادری پرانی سائیکل چلاتے ہوئے محلہ قاضیاں جھنگ سے لاہور تشریف لائے تھے تو شریف خاندان‘ اُن کا کفیل اول تھا۔ تعلقات پرانے ہوں تو فریقین میں ”ڈیل“ آسانی سے ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگی بیان باز خان اور علامہ القادری ”ڈیل“ کو تسلیم نہیں کرتے نہ کریں۔ تقریباً 70 دن کے دھرنے میں علامہ القادری نے حکمرانوں کو جی بھر کر گالیاں دینے کی جو "Net Practice" کی۔ وہ اگلی بار ان کے کام آئے گی۔ جب موصوف انقلاب لانے کیلئے تیسری بار پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں گے۔ علامہ القادری کا دعویٰ تھا کہ ”جب تک وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوکر خود کو گرفتاری کیلئے پیش نہیں کریں گے‘ اس وقت تک میں اپنا دھرنا ختم نہیں کروں گا۔ جناب عمران خان کا دھرنا ختم کرنے کی شرط صرف وزیراعظم کے استعفے کی حد تک تھی۔
علامہ القادری کا تو ”وفاقی حکومت“ سے ”مک مکا“ ہو گیا ہے۔ علامہ القادری کے جنوری 2013ء میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر دیئے گئے دھرنے اور اس کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت کے ساتھ ہونے والے ان کے مک مکا پر ”شاعرِ سیاست“ نے کہا تھا۔
”گرجا اک کینیڈین‘ جب بر مقام مک مکا
بن گیا‘ ڈی چوک پھر دارالعوامِ مک مکا“
اس وقت وفاقی حکومت سے علامہ طاہرالقادری کی "Deal'' یا ”مک مکا“ کو بین الاقوامی میڈیا پر دکھایا گیا‘ لیکن مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت سے ہونے والی ڈیل یا مک مکا کا کوئی گواہ یا عینی شاہد نہیں۔ بعض اوقات گواہ دوسرے فریق کے حق میں گواہی دیدیں تو پہلا فریق حضرت امیر مینائی کی طرح مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ جب انہوں نے کہا کہ
”دل و جگر بھی‘ طرف دار ہو گئے اُن کے
مرے حریف سے جا کر مرے گواہ ملے“
مجھے خواب میں بابا ٹل نے بتایا کہ ”اثر چوہان صاحب:۔ آپ کی فرمائش پر میرے لڑکپن کے دوست علامہ طاہرالقادری کئی سال بعد اپنے والد صاحب ”فرید ملت“ فریدالدین صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے کیلئے جھنگ گئے تھے۔ اس کے بعد ”فرید ملت“ علامہ طاہرالقادری کے خواب میں آکر بولے ”بیٹا! مینار پاکستان لاہور کے زیرسایہ جلسہ عام کا شوق پوا کر لو۔“ اسلام آباد کا دھرنا ختم کرکے کینیڈا واپس جلے جانا۔ 90 ملکوں میں تمہارا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ نازونعم میں پلے تمہارے دونوں بیٹے حسن محی الدین اور حسین محی الدین انقلاب دا بھار نئیں چک سکدے۔ شریف برادران چنگے لوگ نیں‘ اونہاں نال راضی ہو جا۔“
مینار پاکستان کے جلسہ عام سے پہلے ہی مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی مجلس وحدة المسلمین کے راجہ ناصر عباس اور سنی کونسل کے صاحبزادہ حامدد رضا کے بارے میں علامہ طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کے سائن بورڈ اور پوسٹرز جلسہ عام اور ٹھوکر بیگ سے مینار پاکستان تک نہ لگانے دیئے جائیں۔ صرف ”قائد انقلاب“ علامہ طاہرالقادری کے سائن بورڈ اور پوسٹرز ہی لگائے جائیں۔ مختلف نیوز چینلوں کے رپورٹرز اور اینکر پرسنز نے بتایا تھا کہ ”چودھری شجاعت حسین تو نہیں‘ لیکن چودھری پرویز الٰہی‘ علامہ طاہرالقادری سے ناراض ہو گئے۔“ پھر علامہ القادری کا چودھری برادران کو منانے کا تذکرہ ہوتا رہا۔
مینار پاکستان کے جلسہ¿ عام میں تقریب کا آغاز کرنے سے پہلے علامہ القادری نے چودھری شجاعت حسین سے معانقہ کیا اور کہا کہ ”مینار پاکستان میں دس لاکھ سے زیادہ انقلابیوں کو اکٹھا کرنے کا سہرا پاکستان مسلم لیگ (ق)‘ وحدة المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی قیادت کے سروں پر ہے۔ اس لئے کہ پاکستان عوامی تحریک کے قائدین اور کارکنان تو اسلام آباد کے دھرنے کو کامیاب بنانے میں مصروف تھے۔“ دراصل علامہ القادری نے اس طرح کا بیان جاری کرکے اپنی تینوں اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کو راضی کرنے کیلئے کہا تھا پھر علامہ صاحب کی وفاقی حکومت سے ڈیل کی خبریں بھی عام ہوئیں تو علامہ صاحب کے اتحادیوں (خاص طورپر چودھری برادران) نے بہت بُرا منایا اور انہوں نے علامہ القادری کو صاف صاف بتایا کہ ”ہم آپ کے انقلاب کا ایندھن نہیں بن سکتے۔“
مختلف سیاستدان ”جمہوریت کے تسلسل“ کیلئے ایک دوسرے کو ”دھوبی پٹڑا“ مارتے رہتے ہیں۔ دھوبی پٹڑا کشتی کے ایک داﺅ کا نام ہے جس میں پہلوان اپنے حریف پہلوان کو کمر پر لاد کر دے مارتا ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی‘ اپنے حریف (اور حلیف) پہلوان کو سیاسی کشتی میں ہرانے کیلئے جو داﺅ استعمال کرتے ہیں‘ اسے ”چودھری پٹڑا“ کہا جاتا ہے۔ علامہ طاہرالقادری موسمی سیاست دان ہیں‘ لیکن چودھری برادران سالہاسال سے سیاست میں ہیں۔ ”القادری انقلاب“ کو چودھری پٹڑا نے چت کر دیا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024