پرویز مشرف کی فرد جرم بقول شخصے بہت طویل ہے۔ اس ٹینیور میں تو اس کے مختصر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ یوں بھی ہماری قوم کی عادت ہے کہ جانے والوں پر ہمیشہ لعنت ہی بھیجتے ہیں اور آنے والوں کو خواہ کسی بھی رستہ سے آئے ہوں، سلامیاں پیش کرتے ہیں۔
پہلی بار سیاست میں مشرف نے بہت سی باتوں کی طرح ڈالی۔ اس میں بی اے کی ڈگری کا ہونا ضروری ٹھہرا۔ اگر سیاست دانوں کے لئے بی اے کی ڈگری پیش کرنا لازم نہ ہوتا تو اس ملک کے اندر کبھی پتہ نہ چل سکتا کہ کس کس شعبہ میں جعلی ڈگریوں سے مزین شاہکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ رفتہ رفتہ بھید سربستہ راز کی طرح کھلتے گئے۔ وکالت میں، عدالت میں، بیورو کریسی میں، میڈیکل میں، اساتذہ میں اور میڈیا میں۔ کونسا شعبہ رہ گیا جس میں جعلی ڈگریوں اور جعلی ڈاکٹریٹ والے نہیں بیٹھے ہوئے۔ البتہ سیاست دانوں کی پگڑی بہت اچھالی گئی۔ بلکہ ان کو گالی بنایا گیا۔
جب جعلی ڈگریوں کے کیس کھل رہے تھے اور منتخب ارکان کالعدم قرار دیے جا رہے تھے تو ہم نے بارہا لکھا تھا کہ جعلی ڈگری لینے والا ہی گنہ گار نہیں ہے جس یونیورسٹی یا یونیورسٹیوں نے کھلے عام یہ بازار لگا رکھا ہے ان پر بھی گرفت کیجئے۔ اس وقت بھی پاکستان کی کچھ نئی و پرانی یونیورسٹیوں کے بارے میں افواہیں پھیل رہی تھیں کہ اگر ارکان نوٹ کے بدلے ووٹ لے کر آتے ہیں تو بعض لوگ نوٹ کے بدلے ڈگری بھی لے آتے ہیں۔
ہمارے ارباب بست و کشاد کو بروقت سوچنے کی عادت ہی نہیں ہے جبکہ ان باتوں کے دوررس نتائج نکل آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جس نمائندے نے جعلی ڈگری استعمال کی تھی اور الیکشن کمشن نے اسے کالعدم قرار دیا تھا۔ اس کی پولیٹکل پارٹی بھی اصولاً اسے کالعدم قرار دے دیتی مگر ہوا یہ کہ اس بددیانتی کا پارٹی نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ نہ پارٹی کے اندر تادیبی کارروائی ہوئی۔ الیکشن جیت کر آنے کی خوشخبری بھی سنا دی۔ 62/63 کے تحت اگر کوئی کسی قسم کی بددیانتی یا جعل سازی کا مرتکب ہوا ہو تو اسے پارٹی سے باہر کر دینا چاہئے۔ ایوانوں کے اندر یہ جرم ثابت ہوتا رہا۔ اور ٹکٹ ملتے رہے۔ اسی لئے جعلی ڈگری یافتہ دوبار بغیر ڈگری کے الیکشن جیت کر آتے رہے اور انہیں بچاتے رہے۔ یہ عمل ابھی تک جاری ہے کیونکہ پارٹی کے اندر کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہوتا۔
دوسرا یہ کہ کسی بزرجمہر نے اس شق پر غور کرنے کی تکلیف نہیں فرمائی کہ جعلی ڈگریاں کونسی یونیورسٹی تفویض کر رہی ہے۔ 2002ءسے لے کر 2015ءتک کیا کوئی یونیورسٹی گرفت میں نہیں آ سکتی تھی۔ جعلی ڈگریوں کے بھید کھلتے گئے اور اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب وکالت اور میڈیکل کی جعلی ڈگریوں کے کیسز سامنے آئے۔ واہ بھئی واہ سیاست دانوں پر کالک ملنے کے لئے تو سارا میڈیا تیار ہو گیا مگر باقی لوگوں کو اس گرد میں چھپا کے رکھ دیا۔
یہ ٹھیک ہے جعلی ڈگریاں امریکہ میں بھی بکتی ہیں۔ ہمارے کئی وزیران یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر آئے تھے جن کا امریکہ میں وجود ہی نہیں تھا۔
اب انڈیا کی پارلیمنٹ سے بھی یہ آواز اٹھی ہے کہ وہاں بھی ارکان جعلی ڈگریوں کی زد میں پائے گئے ہیں۔
ہمارے ارباب اقتدار کو اب ہوش آیا ہے جب exact اپنا کلہ مضبوط کر چکی ہے۔ جب ڈگریاں تفویض کی جا رہی تھیں کیا سب سوئے ہوئے تھے یا ان کے منہ پر بھی سونے کی مہر لگ گئی تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب بے شمار پرائیویٹ چینل کھلنے شروع ہو گئے تھے تب بھی ہم نے ہاﺅس کے اندر اور باہر شور مچایا تھا۔ اتنی چھوٹ نہ دیجیے کہ یہ اخلاق کی حدیں پھلانگ جائیں۔ بمشکل پیمرا کو تشکیل دیا گیا۔ ہر میٹنگ میں پیمرا نے کہا وہ ہماری سنتے کہاں ہیں جبکہ جرمانہ بھی بالکل معمولی سا ہے۔ مشرف دور کے بعد پیمرا سے کہا گیا چینل کھولنے کی شرائط کڑی رکھی جائیں۔ مگر کہاں جی.... ہر سربراہ مملکت کے کچھ لاڈلے چینل کھولنے آ جاتے ہیں اور آپ تو جانتے ہیں انوکھے لاڈلے کھیلن کو مانگیں پورا ملک....!
ذرا غور فرمائیے: آج کے حالات میں کیا کوئی اور چینل کھولنے کی گنجائش ہے.... بجلی کا بحران ہے۔ چوبیس گھنٹے چینل چلتے ہیں۔ پروگراموں کا معیار گرتا جا رہا ہے اور پھر.... وہی بندے اور کارندے دہرائے جا رہے ہیں۔ اگر ایک سیاسی رکن دوسری پارٹی میں چلا جاتا ہے۔ آپ اسے لوٹا کہنے لگتے ہیں۔ یہاں اینکر ایک کے بعد دوسرا چینل پکڑتے نظر آتے ہیں۔ آپ انہیں لوٹا نہیں فنکار کہتے ہیں۔ کیا پیسہ ہی سب کچھ ہے۔
اب بھی وقت ہے نئے چینل کم از کم دس سال کے لئے نہیں کھولنے چاہئیں۔ ورنہ پالیسیاں سخت کر دینی چاہئیں
افغان مہاجرین کے مسئلے پر ہم نے ہاﺅس کے اندر بہت پہلے توجہ دلائی تھی۔ غور اس وقت یاد آیا جب یہ مسئلہ ہاتھ سے نکلا۔
”را“ کے معاملے پر پہلے بھی کئی بار آواز بلند ہوئی.... مصلحت کی راکھ میں دبا دی گئی۔ واہگہ راہداریوں کے بارے میں واویلا کسی نے سنا کہ نہیں۔
اب جب اسی ہزار سے زیادہ گدھوں کی کھالیں باہر بھیجی گئی ہوں گی ان کا گوشت تو ملک کے اندر بکا ہو گا۔ کتوں اور گدھوں کے گوشت بکنے کی آوازیں اٹھتی رہیں۔ اب جا کے خیال آیا کہ ان کی نسل بچائی جائے.... مگر کیسے.... ایوانوں میں کیا کارروائی ہوئی اور قانون سازی کیا ہوئی۔
ساری فوج ضرب عضب میں لگی ہوئی ہے۔ اس نے اپنا دن کا چین اور رات کا آرام تج رکھا ہے اور شہر میں اب ہدایات دی جا رہی ہیں اور اشتہارات دیے جا رہے ہیں کہ ہوٹل منیجران اور ہوسٹل مالکان کسی اجنبی کو چھان بین کے بغیر کمرہ نہ دیں وغیرہ وغیرہ.... یہ تمام اصول ضوابط چھپوا کر ہر ہوٹل، ہر ہوسٹل اور ہر مدرسہ کے منتظمین کو بھیج کیوں نہ دیے۔ آخر سنگین حادثے کے بعد ایسے خیال کیوں آتے ہیں۔ ہر چار قدم پر تکے کبابوں کی دکانیں کھلی ہیں۔ ریستوران ہیں۔ وہ کتے کا گوشت کھلائیں یا گدھے کا، ہمارے محنت کش عوام نے تو رات کو کھانا ہی ہے۔ ان لوگوں کے لئے کوئی سرٹیفکیٹ ہے کہ نہیں ہے۔ کوئی چیک اور بیلنس ہے کہ نہیں ہے۔ گھی کے کنستروں کی کوئی گارنٹی ہے کہ نہیں ہے۔
ہر روز نفاذ اسلام اور نفاذ شریعت پر کتنی بانگیں سنائی دیتی ہیں۔ مدرسوں، اور مساجد کے اندر انسانوں کی صحیح تربیت کرنا ہی نفاذ اسلام ہے۔
شرعی شکل بنا کے اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرنا اور جعلی دوائی بنانا اسلام کی کون سی شق میں ہے۔ قانون کی گرفت مجرموں پر سخت کیوں نہیں ہے۔
جب تک ہمارے ہاں بروقت قانون کا نفاذ نہیں ہو سکتا سزائیں سخت نہیں ہو سکتیں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔