مجھے لگتا ہے کہ 23 مارچ پاکستان کا سب سے بڑا دن ہے۔ یوم پاکستان ۔ ہم نے ہمیشہ یوم پاکستان یوم آزادی سے پہلے منایا۔ ہم نے برصغیر میں دو تحریکیں چلائیں۔ تحریک پاکستان اور تحریک آزادی۔ تحریک پاکستان کے اندر تحریک آزادی بھی ہے۔ تحریک پاکستان اب تک جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک آزادی بھی جاری ہے۔ ہر دم بیدار اور آزاد رہنے کے لیے اپنے اندر بھی تحریک کی ضرورت ہے۔
میں 23 مارچ کو راولپنڈی/ اسلام آباد میں ہوں مگر میں نے قومی پریڈ پی ٹی وی پر دیکھی ہے۔ زیادہ مزا آیا۔ منظر نامے ‘ مظاہرے اور آوزایں زیادہ صاف شفاف دکھائی دیں اور سنائی بھی.... ہم گھر والے اکٹھے تھے۔ مہمان بھی میزبان بھی۔ جیسے پاکستانیت اس دن میں سمٹ آئی ہے۔ سمٹ کر بکھرنا اور نکھرنا یکجا ہو جاتا ہے اور پھر بات یکتائی کی آرزو کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔
اس دن کے لیے جو آوازیں قومی پریڈ کا احوال ہمارے سامنے لائی ہیں۔ پاکستانی آوازیں ہیں۔ ان آوازوں میں آج برادر عزیز نور الحسن کی آواز میرے دل میں کسی راز کی طرح تڑپ رہی تھی۔ وہ بہت دل والا نوجوان ہے۔ بابا یحییٰ خان اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ بانو قدسیہ ہماری بانو آپا کی وفات پر اسیر احمد خان کے علاوہ ہمہ وقت نظر آنے والا نور الحسن تھا۔ وہ بانو آپا کے لیے بھی بڑی سعادت مندی سے حاضر رہتا تھا۔
نور الحسن کی طرح کبھی شجاعت ہاشمی کی آواز بھی بلند ہو کر سربلند ہوتی ہے۔ یہ بڑا اعزاز ہے جو ہمارے ان دوستوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ان آوازوں میں گونج بھی ہے اور بازگشت بھی ہے۔ یہاں اور بھی آوازیں تھیں جو اچھی لگیں مگر انگریزی بولنے والے اچھے نہ لگے۔ نجانے اس طرح کس ”انفردیت“ کا مظاہرہ ہمارے لوگ کرتے ہیں اس نام نہاد اعزاز میں پاکستانیت کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔
کوئی بتائے کہ اس طرح کیا ہوتا ہے ۔ براہ راست پریڈ دیکھنے والوں اور ٹی وی کے سامنے موجود لوگوں میں سے کتنے ہیں جو انگریزی جانتے ہیں۔ جن کو انگریزی آتی ہے وہ نعرہ تکبیر کا جواب انگریزی میں دے کر دکھائیں۔ اللہ اکبر.... اب تو یہ الفاظ اردو زبان کے احساس سے بھی بھرے ہوئے ہیں قومی پریڈ کے یہ مظاہرے ہماری آرز¶ں کے منظر نامے ہیں۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے اردو میں خطاب کیا۔ وزیراعظم پاکستان نوازشریف بھی اس موقع پر اردوبولتے جبکہ انہیں اب انگریزی آتی ہے وہ یہی ثابت کرنے کے لئے انگریزی بولتے ہیں انگریزی آتی ہو تو پھر بھی قومی ترجمانی کے لئے قومی زبان اردو بولنا چاہئے۔ ہم صدر ممنون حسین کے ممنون ہیں کچھ بدبخت کہہ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں انگریزی نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں انگریزی کسی کو آجائے تو وہ احساس برتری کے کمپلیکس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ میری اردو ذرا کمزور ہے یہ احساس برتری احساس کمتری کی بدترین شکل ہے۔
اس بار پنڈی اسلام آباد آئے ہیں یہ پروگرام تھا کہ چوہدری نثار کلثوم نواز اور مریم نواز سے ملوں گا۔ مگر حکمرانوں کے گھروں میں جو لوگ ہوتے ہیں ان سے ملنے میں جو تکلفات ہوتے ہیں ان سے دل گھبراتا ہے نواز شریف کے ساتھ پورے عرصہ اقتدار میں ایک ملاقات ہوئی ہے وہ بھی رائے ونڈ میں جب وہ وزیراعظم نہ تھے۔ برادرم عرفان صدیقی بھی تھے اب تو وہ بھی حکمرانی کی دہلیز پار کر چکے ہیں۔
نوازشریف جلاوطنی میں تھے تو سنا ہے کہ عرفان صدیقی وہاں ان سے ملنے گئے تھے۔ چلیں اس بہانے عمرہ بھی ہو گیا ہوگا۔ اور اب ”مشیری“ بھی مل گئی ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ کئی لوگ کالم نگاری کے کاروبار میں ایک ٹکٹ میں کئی کئی مزے لے چکے ہیں۔ مگر وفا کے ساتھ غیرت وفا بھی ہوتی ہے ۔ برادرم عطاءالحق قاسمی نے اپنی حکومت تبدیل ہوتے ہی خود سفارت کا منصب چھوڑ دیا تھا اور پھر کالم نگاری کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ اصل چیز تو کالم نگاری ہے۔ عرفان صدیقی اور عطاءالحق قاسمی کو کالم نگاری کرتے رہنا چاہئے۔ اقتدار کے آس پاس رہتے ہوئے کالم نگاری رک کیوں جاتی ہے؟ برادرم حسن نثار نے بھی دوستوں سے یہ اپیل کی تھی۔
ڈاکٹر پروفیسر ناہید شاہد مرحوم کی یادمیں تعزیتی ریفرنس ہوا جہاں وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر بھی موجود تھے۔ ناہید شاہد سے غالباً وی سی صاحب کی ملاقات بھی نہ تھی۔ وہ شعبہ پنجابی میں استاد تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ڈاکٹر ناصر نے خصوصی شرکت کی۔ رجسٹرار ڈاکٹر محمد خالد بھی شریک ہوئے۔ برادرم ڈاکٹر فخر الحق نوری نے یونیورسٹی اورنٹیل کالج اور ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے پنجابی شعبے کی طرف سے نمائندگی کی۔ وائس چانسلر نے کہا کہ ناہید شاہد ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی یادوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ان کی ایک اور ذمہ داری کے لئے میری گزارش ہے کہ ایسے باکمال دوست کی فیملی کے لئے بھی خیال رکھا جائے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس کے لئے مناسب اہتمام کرے۔
پاک بھارت سرحد پر رہنے والی ایک بہت بڑے جذبے والی انوکھی اورتخلیقی خاتون شکیلہ جبیں نے فون پر اپنی دل آباد گفتگو کے دوران ایک اصطلاح استعمال کی جس کے لئے میں سرخوشی اور سرمستی کے درمیان کسی لمحے میں سرشار ہو گیا۔ شکیلہ نے منفرد سوچ والے لوگوں کے لئے کہا کہ وہ ”غیر نصابی لوگ“ ہوتے ہیں۔ ہم نے غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے تو تعلیمی اداروں میں سنا تھا۔ غیر نصابی لوگوں سے اب تعارف ہوا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024