سپریم کورٹ آف پاکستان کے خصوصی بنچ نے پانامہ پیپرز لیکس پر قائم کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر پانچ روزہ سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جس کے بعد پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر نئے وزیر اعظم کے لئے قیاس آرائیوں کا ایسا سلسلہ شروع ہو ا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ بعض نجی ٹی وی چینلوں پر اینکر پرسنز کی نام نہاد عدالتوں نے تو وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ’’نا اہل ‘‘ ہی قرار دے دیا ہے اور اس مفروضے کی بنیاد پر ’’تخت اسلام آباد‘‘ کے لئے امیدواروں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں میڈیا نے’’کنفیوژن ‘‘ کی فضا پیدا رکھی ہے جو عام پاکستانی کی روز مرہ کی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے مستقبل کے ’’سیاسی نقشہ ‘‘ بارے میں کسی اخبار نویس کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں لیکن قیاس آرائیوں کا سلسلہ عروج پر ہے میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں کوئی ایسا صحافی موجود نہیں جس کے ساتھ وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنے دل کی بات کرتے ہوں وہ طے شدہ پالیسی کے تحت اپنے آپ کو ’’صحافتی مخلوق‘‘ سے دور رکھتے ہیں صحافیوں کی نہ ہی اقتدار کے ایوانوں تک اس حد تک رسائی ہے جہاں سے وہ خبر نکال کر لے آئیں صحافیوں اور اینکرپرسنز کو ڈس انفارمیشن پھیلانے کے لئے تیارشدہ مواد فراہم کر دیا جاتا ہے لیکن جس انداز میں پاکستان میں ’’ڈس انفارمیشن ‘‘ پھیلائی جا رہی ہے اس نے صحافت کو بے توقیر کر دیا ہے میڈیا اپنی ہی پھیلائی ہوئی ’’ڈس انفارمیشن ‘‘ بار بار ترمیم کرکے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتا ہے وزیر اعظم ہائوس میں مسلم لیگ (ن) کے منعقد ہونے والے ا علیٰ جلاسوں کے بارے میں جس کے جی میں جو آتا ہے ’’افواہ‘‘ پھیلا دیتا ہے بعض اوقات تو وزیر اعظم ہائوس میں کوئی اجلاس ہی نہیں ہوتا لیکن نجی ٹی وی چینل فائل فوٹو چلا کر لوگوں کو ہلکان کرتے رہتے ہیں اسی طرح مجھے ذاتی طور علم ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جن تک عام اخبار نویس کی رسائی ممکن نہیں لیکن وہ ان سے ملاقاتوں اور سیاسی مستقبل کے بارے میں خبریں دے کراپنی ’’لاعلمی‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں رہتے ہر روز درجن بھر اخبارنویس مجھ سے چوہدری نثار علی خان کے آئندہ لا ئحہ عمل کے بارے میں استفسار کرتے ہیں میں ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہوں کہ چوہدری نثار علی خان ایک ’’گہرا‘‘ سیاست دان ہے وہ اپنے دل کی بات کسی کو نہیں بتاتا اس کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود بعض ٹی وی چینل ان کے بارے میں ایسی قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ میاں محمد نواز شریف اس لحاظ سے سب سے ’’مظلوم‘‘ شخصیت ہیں جن کی ذات پر سیاست دان اور صحافی بھی سنگ باری کررہے ہیں۔ جو خوداپنی کمائی کو حلال کی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں ایک سیاست دان کے بارے میں تو مجھے ذاتی طور پر علم ہے جب تک نواز شریف اقتدار میں رہے ہر وقت اس نے نواز شریف کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھا ہوتا ۔ پانامہ پیپرز لیکس پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اس کا اعلان کسی وقت بھی ہو سکتا ہے ممکن ہے ہفتہ عشرہ لگ جائے لیکن بعض چینل وزیر اعظم کی ممکنہ ’’ نا اہلی‘‘ کے بارے میں اپنا فیصلہ دے چکے ہیں اور وہ اسی تناظر میں مستقبل کی سیاست کا نقشہ کھینچ رہے ہیں جب کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف اس صورت حال میں مطمئن دکھائی دیتے ہیں انہوں نے سیالکوٹ کے دورے کے بعد لواری ٹنل کا افتتاح کیا ہے ہفتہ کو وہ موسم انجوائے کرنے مری چلے گئے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مری سے ان کو ’’عشق‘‘ ہے اور وہ اسے دوسرا گھر سمجھتے ہیں وہ ’’ باڈی لینگوئج‘‘ سے اپنے سیاسی مخالفین کو بار بار پیغام دے رہے ہیں کہ وہ موجودہ صورت حال کا موثر انداز میں مقابلہ کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کو للکاررہے ہیں کہ اداروں کے پیچھے چھپنے کی بجائے سیاسی میدان میںآ کر مقابلہ کرنے کرے دوسری طرف سپریم کورٹ میں عوامی عہدہ کے لئے نااہلیت کے کیس میں ’’کپتان‘‘ لندن میں فلیٹ کی خریداری کے بارے ’’منی ٹریل ‘‘ دینے میں ناکام ہو گئے ہیں ان کے سر پر بھی’’ نااہلی ‘‘کی تلوار لٹک رہی ہے اب تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ برملا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ عمران خان کو بھی جانا پڑے گا جب کہ لال حویلی کے’’مکین ‘‘ نے یہ پیشگوئی کی ہے نواز شریف اور عمران خان کی نا اہلی کے بعد آصف علی زرداری کی باری ہے اگرچہ عمران خان کی نظریں ’’تخت اسلام آباد ‘‘ پر لگی ہیں لیکن ’’سیاسی جوتشی‘‘ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں ’’وزارت عظمیٰ ‘‘ کی لکیر ہی نہیں ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے ریمارکس سے متوقع فیصلہ کے’’ تانے بانے ‘‘ بننے والوں کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چائیے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف پر سرکاری خزانے کو ایک پائی کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور نہ ہی پانامہ پیپرز لیکس میں ان کا نام ہے اپنے بچوں کے نام کاروبار میں ان کو کس طرح مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا؟؟ سپریم کورٹ نے بار بار وزیر اعظم کے وکیل سے’’ٹرائل یا نیب کورٹ ‘‘ میں کیس بھجوانے کے بارے میں استفسار کیا تاہم وکیل نے اس کیس کی مزید تحقیقات پرزور دیا اس لئے وزیر اعظم کی ممکنہ نااہلی بارے میں قیاس آرائی کرنا زیادتی ہے پھر اس پر طرفہ تماشا یہ کہ نئے وزیر اعظم کے لئے نام مارکیٹ میں آگئے ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے گھر کیا گئے یار دوستوں نے خواجہ آصف کا نام متوقع طور لینا شرو ع کر دیا پھر شاہد خاقان عباسی ،احسن اقبال ، مرتضیٰ جاوید عباسی کا نام لیا جانے لگا اب یہ کہا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کی ’’نا اہلی‘‘ کی صورت میں 45روز کے لئے کسی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے گا پھر میاں شہباز شریف کو قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروا کر وزیر اعظم بنا دیا جائے گا اسی طرح پارلیمنٹ کے سینئر ترین رکن چوہدری نثار علی خان کے بارے قیاس آرائیاں کی گئیں تو ان کے قریبی حلقوں نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ وہ متبادل وزیر اعظم بنائے جارہے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے لہذا انہیں تو اس دوڑ سے باہر ہی سمجھا جائے البتہ ایک بات واضح ہے اگر وزیر اعظم کی ’’نا اہلی‘‘ کی صورت میں کسی جونیئر کو وزیر اعظم بنایا گیا تو وہ اس کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے مسلم لیگ( ن) کے ’’کارکن‘‘ چوہدری نثار علی خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں متفکر دکھائی دیتے ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سے آج ممکنہ طور پر بڑی حد تک شکو ک وشبہات دور ہو جائیں گے۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتاہوں مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے کسی اجلاس میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے کسی متباد ل کا نام ہی زیر غور نہیں آیا کسی کی اتنی جرات کہاں جو وزیر اعظم محمد نواز شریف کے سامنے ان کے متبادل کی تجویز پیش کرے یہ بات کرنے کی جرات صرف چوہدری نثار علی خان میں ہے جو وزیر اعظم کے سامنے کھل کر بات کر سکتے ہیں لیکن ان کو تو اب وزیر اعظم ہائوس میں کسی مشاورتی اجلاس میں مدعو ہی نہیں کیا جارہا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جو باتیں چوہدری نثار علی خان نے کہیں یہ ان کا ہی حوصلہ ہے۔ وزیر اعظم کی برداشت کو بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی حق گوئی پر اس قدر کہہ کرکہ ’’ لحاظ میری قوت اور لحاظ ہی میری کمزوری ہے ‘‘ وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی کر دیا اگر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے تنہائی میں اپنے کسی متبادل کا نام سوچا ہے تو وہ صرف بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کو معلوم ہے میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں مسلم لیگ (ن) میں وزیر اعظم کے جانشین کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنی ’’مٹھی ‘‘ بند رکھتے ہیں ان سے دل کی بات اگلوانا مشکل ترین کام ہے یہی وجہ ہے عرصہ سے انہوں نے ’’ محفل آرائی ‘‘ ترک کر دی ہے۔ اپنی تمام تر توجہ توانائی کے بحران کو ختم کرنے اور ترقیاتی منصوبوں پر مرکوز کر دی ہے۔