مریم نواز نے ایک اچھا جملہ کہا ہے کہ نواز شریف جہاں سے گزر جائیں وہاں جلسہ ہو جاتا ہے تو ایک جملہ اور بھی سنیں۔ مریم نواز کو نواز شریف کا یہ شاعرانہ جملہ اچھا لگا ہے۔ انہوں نے شاعرانہ کا لفظ خود استعمال کیا ہے۔ وہ شاعری سے دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ نواز شریف کا یہ جملہ سب سننے والوں کو پسند آیا۔ ہم بھی چونکے تھے۔ ’’سیاست میں کامیابی دھرنے سے نہیں آتی کچھ کرنے سے آتی ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ نواز شریف نے کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ نجانے ہمیں اس کی خبر کیوں نہیں ہوئی۔ مریم نواز ہی کچھ بتا دیں۔ اس نعرے میں توازن اور ترنم کا لطف تھا۔ اسے بھی برباد کر دیا گیا۔ دیکھو دیکھو کون آیا۔ آزاد کشمیر میں شیر آیا۔ لوگوں کو معلوم ہی تھا کہ وہ آزاد کشمیر میں آئے ہیں۔ آزاد کشمیر والوں کو یقین دلانا تھا کہ نواز شریف آزاد کشمیر میں ہی آئے ہیں۔ کہتے ہیں آزاد کشمیر نہ آزاد ہے نہ کشمیر ہے۔ اور یہ کہ وفاق میں جس کی حکومت ہوتی ہے اسی پارٹی کی حکومت آزاد کشمیر میں ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج کل وزیراعظم نواز شریف ہیں؟
مجلس وحدت المسلمین کے دھرنے میں باپردہ عورتوں کی نعرہ بازی سے خوشی ہوئی۔ اس طرح مرد حضرات یعنی مولوی صاحبان بڑے جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے مگر عورتوں کی آواز ان سے زیادہ بلند تھی۔ خدا انہیں سربلند کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بے پردہ سڑکوں پر مسلمان سیاستدانوں نے عورتوں کے دھرنا دینے کو بھی جائز قرار دے دیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یہ مولوی حضرات تھے جنہوں نے ایک زمانے میں یہ فتویٰ دیا تھا کہ ریل گاڑی میں سفر کرنا حرام ہے۔ اب گاڑی میں لٹک کر سفر کرنے والوں میں مولوی صاحبان بھی ہوتے ہیں۔ اب تو عورتیں بھی لٹک کر سفر کرنے کی ماہر ہو گئی ہیں۔ ایک یہ بھی فتویٰ ریکارڈ پر ہے کہ لائوڈ سپیکر میں بولنا حرام ہے۔ اب سب سے زیادہ لائوڈ سپیکر میں کون بولتا ہے؟ حکومت نے اس پر پابندی لگانے کے لئے بھی سوچا ہے مگر ابھی تک صرف سوچا ہی ہے؟
لڑکیوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے لئے لفظ غیرت کا استعمال نہ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں خاتون وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ یہ بات میڈیا پر نہ لائی جائے۔ یہ قاتلوں اور ظالموں کو شہہ دینے والی بات ہے۔ ان غیرت مند قاتلوں نے اپنی عورتوں کو قتل کرنے میں ہمیشہ آسانی محسوس کی ہے۔ کسی اکیلے مرد کو اس وجہ سے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ اختیار بہنوں اور بیٹیوں کو دیا جائے تو مردوں کے لئے جان بچانا مشکل ہو جائے۔
عمران کا کردار اب بلاول بھٹو زرداری نے سنبھال لیا ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بری طرح شکست کی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس بات کی توقع عمران سے تھی وہ بلاول نے کر دکھائی۔ ’’آزاد کشمیر میں ن لیگ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے دھاندلی کی ہے‘‘ ہم تحریک چلائیں گے۔ عمران نے ن لیگ والوں کو فتح کی مبارکباد دی ہے۔
بڑھاپے کی طرف تیزی سے گامزن جاوید ہاشمی نے بہت دلچسپ بات کی اگر عمران خان استعفیٰ دے دیں تو نواز شریف نئے انتخابات کا اعلان کر دیں گے اور اس سے پہلے انہیں استعفیٰ دینا پڑے گا۔ ایسی ہی بات سے تنگ آ کر عمران نے جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف سے نکال دیا تھا۔ البتہ تنگ آمد سے پہلے ہی جو آدمی بجنگ آمد ہوا تھا وہ شاہ محمود قریشی ہے۔ اب چودھری سرور کا بھی وہی حشر کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی پوری طرح سرگرم ہے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف سے عمران کو نکال کر خود جماعت کی سربراہی سنبھال لی جائے۔ آج کل عمران خان بھی اپنی حرکتوں سے یہ صورتحال شاہ محمود قریشی کے لئے آسان بنا رہا ہے۔ مگر اب اصل رکاوٹ چودھری سرور ہے۔
تحریک انصاف میں مختلف عہدے میرٹ کے بغیر تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ جیسے وزارتیں بانٹی جاتی ہیں۔ پرانی خواتین و حضرات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو لوگ خلوص سے وابستہ ہیں۔ جب عمران خان کے ساتھ بہت کم لوگ تھے تو یہ مخلص خواتین و حضرات ان میں شامل تھے۔ عمران خان روایتی سیاستدان بن چکا ہے اور اپنی انقلابی پارٹی کو بھی عام سیاسی جماعت بلکہ جماعت اسلامی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ محمودالرشید اور اعجاز چودھری جو جماعت اسلامی سے تحریک انصاف میں گئے ہیں عمران خان سے اس حوالے سے بہت تعاون کر رہے ہیں۔
سینئر اور کامیاب صحافی صالح ظافر نے کہا ہے سینٹ میں اچانک اعتزاز احسن کو قندیل بلوچ یاد آ گئی۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ یہ خبر بھی کسی صحافی نے دی ہے کہ مفتی عبدالقوی قندیل بلوچ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ جب قندیل نے مفتی صاحب کے بارے میں الٹے سیدھے بیانات دینے شروع کئے تو مفتی صاحب گھبرا گئے۔ اسی دوران قندیل بلوچ قتل ہو گئی۔
سی پی او ملتان ڈی آئی جی اظہر اکرم نے فوراً یہ بیان دیا ہے کہ ہم نے مفتی عبدالقوی کو شامل تفتیش نہیں کیا ہے۔ کیا قندیل کا قتل مفتی صاحب اور قندیل کی ملاقات کے بعد نہیں ہوا جب مفتی صاحب نے عید کے چاند سے پہلے چاند دیکھا تھا۔ قندیل ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ علاقے سے نکلی اور میڈیا پر چھا گئی۔
سنا ہے نواز شریف پھر لندن جا رہے ہیں۔ ان کی ٹانگ میں انفیکشن ہے۔ صحافی عامر متین کہتے ہیں کہ چودھری نثار بہترین قائم مقام وزیراعظم ثابت ہوں گے جبکہ اسحاق ڈار کو قائم مقام وزیراعظم کا تجربہ بھی حاصل ہو چکا ہے۔ شاید نواز شریف کو کچھ دیر ہو جائے کہ مریم نواز ضمنی الیکشن میں امیدوار ہوں گی۔ پھر قائم مقام وزیراعظم کا جھگڑا خود بخود ختم ہو جائے گا اور قندیل سیاست کی روشنیاں ہر طرف بکھر جائیں گی۔