مَیں نے دسمبر 2002ء میں علّامہ طاہر القادری کی وطن واپسی، جنوری 2013 ء میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور اسلام آباد کے ڈی چوک پراُنہیں اُچھل اُچھل کر اور چاروں طرف ہاتھ گُھما گُھما کر (اُن دِنوں) صدر آصف زرداری اور وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف کو قہر و غضب سے پُکارتے اور لعنت ملامت کرتے ہُوئے دیکھا۔ ہندی فلم ’’ہلاکُو خان‘‘ میں ہلاکُو خان کا کردار ادا کرتے ہُوئے آنجہانی پر ان کی طرح فِلم کے ہلاکُو خان کا تکیہ کلام تھا ’’خُدا نے ہمیں غُصّے کی حالت میں پیدا کِیا ہے‘‘ علّامہ طاہر اُلقادری کا اب بھی وہی "Style" ہے۔
’’علّامہ طاہراُلقادری کا جوتا اور لات!‘‘
اپنے تازہ ترین خطاب میں علّامہ طاہراُلقادری نے کہا کہ ’’مَیں بھی قومی اسمبلی کا رُکن رہا ہُوں لیکن مَیں پارلیمنٹ ہائوس کو اپنا جُوتا اور قومی اسمبلی کی نشِست کو لات مار کر باہر آ گیا تھا۔‘‘ القادری صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کا جُوتا باٹا پور کا تھا یا جھنگ کا کُھسّا؟ اور کیا وہ اپنا جُوتا پارلیمنٹ ہائوس کو مار کر پھر اپنے پائوں میں پہن کر چلے گئے تھے؟ یا پارلیمنٹ کے باہر ہی چھوڑ گئے تھے؟ اور جُوتے کے دُوسرے پَیر کا کیا ہُوا؟ کیا انہوں نے جُوتے کا دوسرا پَیر بطور یادگار یا تبرّک کے دے دِیا تھا؟‘‘ اور یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ علّامہ صاحب نے اپنی نشِست پر دَائِیں لات ماری تھی یا بائِیں۔ دورغ بر گردن راوی کہ ’’علّامہ صاحب نے اپنی نشِست کو بائِیں لات ماری تھی جِس کے بعد موصُوف انگریزی کے معرُوف شاعر لارڈ بائرن کی طرح لنگڑا کر چلنے لگے اور جِس طرح لارڈ بائرن کا لنگڑا کر چلنا اُن کا سٹائل بن گیا تھا اُسی طرح علّامہ طاہر اُلقادری کا بھی۔ اب اُن کے لاکھوں پَیروکاروں نے بھی اپنے پِیر و مُرشد کا سٹائل اپنا لِیا ہے۔
’’دستورکی دھجّیاں‘‘
سپریم کورٹ میں موجودہ سیاسی بحران میں ’’کسی ریاستی ادارے یا اہلکار کی جانب سے ممکنہ ماورائے آئینی اقدام‘‘ سے متعلق کیس کی سماعت کے دَوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ’’عدالت کا راستہ شاہراہِ دستُور پر کُھلتا ہے، ہمیں آنے جانے کے لئے دُوسرا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ شاہراہِ دستُور پر غیر مجاز افراد شہریوں کے شناختی کارڈز چیک کر رہے ہیں عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی لیکن سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان شاہراہِ دستُور سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے نہیں جا سکتے۔ ہم سب نے دستُور کے تحفظ کا حلف اُٹھا رکھا ہے کہ شاہراہِ دستُور بند کیوں ہے؟‘‘ اُدھر وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ ’’چیئر مین پاکستان تحریکِ انصاف شاہراہِ دستُور پر دستُور کی دھجّیاں اُڑا رہے ہیں۔ اُستاد ناسخؔ نے کہا تھا کہ ؎
جیب کیا؟ دامانِ محشر کی اُڑیں گی دھجّیاں!
ہے یہی عالم جو اپنے پنجۂ چالاک کا
صُورتِ حال یہ ہے کہ عمران خان تو سپورٹس مَین تھے لیکن اُن کے قریبی ساتھیوں نے انہیں دستُور کو نہ ماننے والے ’’شیخ اُلاسلام‘‘ کے ’’پنجۂ چالاک‘‘ میں پھنسا دِیا ہے۔ میاں شہباز شریف اپنے جلسوں میں اکثر عوامی شاعر حبیب جالبؔ کا کلام گایا کرتے تھے کہ ؎
’’ایسے دستُور کو صبحِ بے نُور کو
مَیں نہیں مانتا مَیں نہیں جانتا‘‘
اب تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے اِس کلام کا غلط استعمال کرنا شروع کر دِیا تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟
’’چرخے دی گُھوک سُن کے!‘‘
ایک پنجابی لوک گِیت میں گائوں میں چرخا کاتتے ہُوئی خواتین میں سے کسی ایک کے چرخے کی گُھوک (آواز) سُن کر پہاڑ پر عبادت میں مصرُوف جوگی کے پہاڑ سے اُتر کر گائوں میں آنے کے منظر کو بیان کرتے ہُوئے کہا گیا تھا کہ ؎
’’چرخے دی گُھوک سُن کے
جوگی اُتّر پہاڑوں آیا!‘‘
تو معزز قارئین و قارِیات! جناب آصف زرداری اپنے دُوسرے گھر دُبئی میں گھریلو کام کاج میں مصروفِ تھے کہ وطنِ عزیز میں ’’سیاست کے چرخے کی گھُوک‘‘ سُن کر واپس چلے آئے۔ اب ؎
’’صلائے عام ہے یارانِ نُکتہ داں کے لئے!‘‘
کے مصداق وزیرِاعظم میاں نواز شریف سے لے کر امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق تک ہر کسی کو ٹیوشن پڑھا رہے ہیں۔ رائے وِنڈ میں وزیرِاعظم کے دسترخوان پر ’’سِندھی بریانی، بے نظیر قُلفہ، کشمیری نان اور سِری پائے سے لُطف اندوز ہونا تو محض زیبِ داستاں ہے۔
’’اِک کائرہ‘‘ مَینوں لوڑی دا!‘‘
پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنا دھاری کارکنوں سے خطاب کرتے ہُوئے ٗجناب عمران خان نے قومی اسمبلی کے ارکان مولانا فضل الرحمن، جناب محمود خان اچکزئی اور سیّد خورشید شاہ کو ضمیر فروخت کرنے والے قرار دِیا۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے جناب قمر زمان کائرہ کو ’’صاف دِل‘‘ کا خطاب دیتے ہُوئے کہا کہ ’’میں کائرہ صاحب سے مذاکرات کرنے کو تیار ہُوں۔‘‘ یہ خان صاحب کا ’’حُسنِ انتخاب‘‘ ہے۔ جناب قمر زمان کائرہ میری بھی پسندیدہ شخصیت ہیں (اگرچہ میں اُن سے کبھی نہیں مِلا)۔ جنوری 2013 ء میں جب علّامہ طاہراُلقادری نے اپنا ’’اِنقلاب‘‘ لانے کے لئے اسلام آباد پر پہلا حملہ کِیا تھا تو جنابِ کائرہ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات تھے۔ وہ پی ٹی وی پر علّامہ طاہراُلقادری کی ’’نقلیں‘‘ اُتار کر اپنے اندر کے فنکار کو باہر لا کر عوام میں مزید مقبول ہو گئے تھے۔ مَیں بھی اُن کا مدّاح بن گیا تھا۔ جولائی 2013 ء میں گجرات ہی کے میرے عزیز معظّم ریاض چودھری نے مجھے "Face Book" پر ایک وِیڈیو فِلم دِکھائی جِس میں جناب کائرہ ایک نجی محفل میں حضرت میاں محمد بخشؒ کا کلام بڑے سُر سے ٗگا رہے تھے۔ کلام تھا ؎
’’مَیں کوہجی میرا دِلبر سوہنا
اَیویں صاحب نُوں وڈیائِیاں
مَیں گلِیاں دا رُوڑا کُوڑا
تے محل چڑھایا سائِیاں‘‘
یعنی ’’میں بدصورت ہوں اور میرا محبوب خوبصورت۔ یہ صاحب (پروردگار) کی عظمت ہے ورنہ مَیں تو گلیوں کے کچرے کی طرح تھی لیکن میرے مُرشد نے مجھے محلوں میں رہنے کے قابل بنا دیا ہے۔‘‘ جناب قمر زمان کائرہ نے میری درخواست پر توجہ نہیں دی کہ وہ جُزوقتی گائیک بن جائیں۔ اِس صُورت میں موصوف اب تک اس شعبے میں بھی بڑا نام پیدا کر سکتے تھے۔ جناب عمران خان نے جنابِ کائرہ کو ایک ’’فنکار‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ ؎
’’اِک ‘‘ کائرہ ‘‘ مَینوں لوڑی دا!‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024