پاکستان میں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہنے والی چیز سیاسی استحکام ہے۔مگر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے یہ دھچکا لگنے سے بچ گیا۔ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، قیام پاکستان کے بعد بدتریں طوائف الملوکی، بار بار کے مارشل لا اور درمیان درمیان میں پھر عدم استحکام ،، کوئی منتخب حکومت ڈیڑھ دو سال سے زیادہ نہ چل سکی، اس سے بحث نہیں کہ قصور کس کا تھا مگر یہ واضح ہے کہ نقصان ملک اوراسکے عوام کا ہوا۔
پانامہ پر میرا پہلے دن سے موقف ہے کہ یہ الزامات کاپلندہ ہے، ثبوتوں کا نہیں، ان الزامات کو کسی کورٹ آف لا میں ثابت کرنا ضروری ہے، پاکستان میں پانامہ کی آڑ میں شور شرابا بہت ہوا مگر اس طرح نہ تو حکومتیں جایا کرتی ہیں اور نہ جانی چاہئیں۔ پانامہ کا مقدمہ عدالت میں جو لوگ گئے ، وہ پانامہ لیکس کے نمائندے نہیں تھے،ا س لئے ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں تھے۔، سپریم کورٹ کسی ثبوت کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتی تھی، میر ایک کالم نہیں، ہر کالم اس دلیل سے اٹا ہوا ہے کہ پانامہ لیکس اسوقت تک کچرے کا ڈھیر ہے جب تک انہیں ثابت نہ کیا جائے، پانامہ لیکس والے پاکستان کی آئینی حدود میں نہیں تھے، اس لئے وہ پاکستان کی عدالتوں کا رخ نہیں کر سکتے تھے، نہ پاکستانی عدالتیں انہیں اپنے کٹہرے میں طلب کرنے کی مجاز تھیں۔
جو ہنگامہ پاکستان میں پانامہ کی آڑ میں ہوا ، وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں دیکھنے میں آیا ، جبکہ پانامہ میں عالمی سطح کے ہزاروں افراد کو مطعون کیا گیا تھا۔کسی ایک ملک کے حکمران نے استعفی تو دیا مگر باقی کسی نے اسے پر کاہ کے برابر حیثیت نہ دی۔
آئین کی رو سے سپریم کورٹ کسی بھی لحاظ سے ٹرائل کورٹ نہیں،مگر اس عدالت کو ٹرائل کورٹ بننے پر مجبور کیا گیا، عدالت مجبور کیوں ہوئی، اس کا جواب عدلیہ ہی دے سکتی ہے مگر میری حتمی رائے ہے کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہ تھا۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ شریف خاندان نے اس نکتے کو عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا، ا سکی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ خاندان والوں کو اپنی سچائی اور صفائی پر حد سے زیادہ اعتماد تھا کہ یہ الزامات غلط ہیں، اس لئے وہ اس طعنے کو سننے کے لیئے تیار نہ ہوئے کہ مقدمے سے فرار چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہو اکہ ان کے خلاف ہر طرح کا گند اچھالا گیا، سڑکوں پر ۔ ٹاک شوز میںؓ اور عدالت کے اندر بھی مگر وہ اپنی تلاشی دینے کے لئے تیار تھے۔یہ ان کی بڑائی ہے جسے ان کے مخالفین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
صادق اور امین ، یہ الفاظ انتہائی متبرک ہستی کے نام منسوب ہوئے، اور وہ بھی ان کی نبوت سے پہلے، ہم نے ان الفاظ کواپنے آئین میں ڈالا اور رول کرکے رکھ دیا، ریٹرننگ افسروں کو شاید خود بھی دعائے قنوت نہ آتی ہو مگر انہوں نے کئی امیدواروں کو اس بنا پر باسٹھ تریسٹھ کے منافی کہہ کر الیکشن ہی سے باہر کر دیا۔صادق اور ا مین کے ساتھ یہ ایک بھونڈا مذاق ہے جو ہم اعلی ترین عدالت کے سامنے بھی لے گئے، کسی کی شہرت یا بدنامی کو بنیاد بنا کر صادق اور امین کہنا یا نہ کہنا میرے خیا ل میں اس ہستی کے تقدس کے منافی ہے جن کو سب سے پہلے صادق اور امین ہونے کا شرف حاصل ہوا، صادق اور امین کا فیصلہ اصل میں کسی کے ایمان اور کردار کے بارے میں فیصلہ ہے جس کا علم سوائے اللہ کی ذات کے کسی نہیں ہو سکتا، ووٹنگ سے آپ کسی کوصادق اور امین ثابت نہیں کر سکتے، یہ انصاف اور مذہب کے تقاضوں کے بر عکس ہے مگر ہم نے اعلی تریں عدالت کو اس امتحان میں ڈال دیا۔اور دو ججوں نے اپنے اختیار یاا پنی صوابدید یا اپنی دانش کو استعمال بھی کر لیا مگر فیصلہ تو عدالت کے اکثریتی ارکان کی بنا پر ہونا تھا،اس لئے یہ فیصلہ ہو ا کہ صادق اور امین قرار دینے کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
مزید تحقیقات بھی جاری رہیں گی، دو نوجوان پاکستانی شہری ہی نہیں، وزیراعظم کا پانامہ میں نام نہیں تو تحقیقات والے آگے کیسے بڑھیں گے، چلئے، یہ ان کاکام ہے۔
وزیر اعظم کو نااہل کرانے پہ سارا زور تھا، یہ بس تو نہیں چلا ، دوسرا نشانہ مریم نواز تھیں، ان سے بھی عدالت نے در گزر کی۔اور وزیر اعظم کو ان کاکفیل تسلیم نہ کیا گیا، یوں عمران اینڈ پارٹی کا ایک نشانہ اور خطا گیا۔
ایک مقدمہ جس کا وجود ہی نہ تھا، ایک عدالت جس کو سماعت کا اختیار ہی نہ تھا،ا سلئے کہ وہ ٹرائل کورٹ ہی نہ تھی اور ایک وزیر اعظم اور ان کا خاندان جن کا کوئی گناہ ہی نہ تھا، انہیں شور شرابے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، اصل نشانہ سیاسی نظام تھا، دھرنے میں بھی امپائر کی انگلی پر انحصار کیا گیا مگر یہ آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔ سیاسی نظام بار بار بچتا چلا گیا اور اب تو اس پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی اور وہ بھی سپریم کورٹ کی۔ یہ ملک اور اس کے عوام کے لئے نیک شگون ہے۔
بہر حال مجھے ہنسی آتی ہے ان کرایہ دار درباریوں پر جو تین ججوں کو سلام کر رہے ہیں ، جو پوری عدالت کے فیصلے کو سراہتے نہیں تھکتے، کوئی دوسرا فیصلہ آنے پر یہ درباری جو راگ الاپتے، ہر شخص کو اس کا اچھی طرح علم ہے۔ درباری دونوں طرف موجود ہیں اور نمک حلالی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اللہ ان کے حال پر رحم فرمائے، یہ بول بول کر، لکھ لکھ کرہلکان ہو رہے ہیں۔
میری دلچسپی سسٹم کی بقا اورا سکے استحکام کے ساتھ ہے، یہ اتفاق کی بات ہے کہ سسٹم چلتا ہے تو شریف خاندان کی حکومت بھی چلتی ہے، یہ حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی ہے، اور اس کو حق حاصل ہے کہ اپنی ٹرم پوری کرے مگر پچھلے چار برس میں اسے ٹک کر کام نہیں کرنے دیا گیا، اس میں حکمرانوںکا کیا جائے گا ، وہ تو اس قدر پاپولر ہیں کہ دوبارہ منتخب ہو جائیں گے مگر عوام بے چارے گھاٹے میں رہے،وہ ترقی اور خوش حالی کے تیز رفتار سفر سے محظوظ نہ ہو سکے، یہ سی پیک، یہ بجلی کے منصوبے، یہ موٹر ویز، یہ اورنج ٹرین اور بہت کچھ ، عوام کی قسمت کھوٹی ہو گئی، شور شرابا مچانے والے تو محلات کے باشندے ہیں، ان کاکیا بگڑا، وہ مزید شور شرابا مچائیں گے تاکہ عوام کا اور ملک کا اور سسٹم کا اور جمہوریت کا مزید نقصان ہو، اللہ ان کو ہدائت دے۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38