یہ اصولی بات ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر مایہ ناز صحافی بہادر بے باک اور سچے انسان ضیا شاہد نے کہی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ایک فکری نشست منعقد کی۔ موضوع تھا خوددار پاکستان.... تقاضے اور امکانات“۔ یہاں کلیدی خطاب ضیا شاہد کا تھا۔ وہ ایک بھرپور صحافی ہیں۔ وہ نوائے وقت لاہور کے ڈپٹی ایڈیٹر اور نوائے کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ ہفت روزہ ”صحافت“ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ بھٹو کے دور میں گرفتار ہو کے شاہی قلعے کے مہمان بنے۔ سات ماہ تک یہ جیل کاٹی۔ آزادی صحافت کے جرم میں سزا کاٹی۔ شعبہ صحافت میں اعلیٰ خدمات کے لیے صدر مشرف کے دور میں اعلیٰ سول اعزاز ستارہ¿ امتیاز عطا کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ملا۔
روزنامہ پاکستان کے بانی ایڈیٹر رہے۔ انہی دنوں میں مجھے بھی اس اخبار میں ضیا شاہد کی قیادت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ مرشد و محبوب مجید نظامی ضیا شاہد کے لیے پسندیدگی رکھتے تھے۔ انہیں بہت دیر تک نظامی صاحب کی قیادت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ضیا شاہد بھی ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے تھے۔ مجید نظامی کے بعد کسی ممتاز صحافی پر نظر ٹھہرتی ہے تو وہ صرف ضیا شاہد ہیں۔ بڑے سے بڑے عہدیدار کے سامنے بے باکی سے منہ پر بات کرنے کا ہنر اور جرات ان کے پاس ہے۔ وہ خوبصورت اور مضبوط گفتگو کرنے کے ماہر ہیں۔ وہ بہت پڑھے لکھے انسان ہیں۔
انہوں نے اپنے اخبار سے پہلے نوائے وقت سے وابستگی اختیار کیے رکھی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ”قرضے اور بھیک لینے والے ممالک کبھی خوددار نہیں ہو سکتے۔“ ان کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔ بھکاری کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔
اس موقع پر شاہد رشید نے کہا کہ عوام کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے تو ہم اپنے ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ ہمارے پاس بیش بہا وسائل ہیں۔ ہم اپنی معاشی حالت بہتر بنا سکتے ہیں۔ چودھری نعیم حسین چٹھہ پیر اعجاز ہاشمی اور دوسرے کئی دوستوں نے خطاب کیا۔
کلیدی خطاب ضیا شاہد کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو امریکہ کے ڈرون حملے کے بعد امریکہ جانے سے پہلے امریکی سفیر سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ یہ طرز عمل قومی خودداری کے خلاف ہے۔ قومی غیرت مندی کے لیے ہمیں قائداعظم کے رویے کو سامنے رکھنا چاہیے۔
جب ہمیں کوئی ملک امداد دیتا ہے تو وہ اپنی شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ اکثر یہ شرائط ہماری خودداری اور غیرت کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس صورتحال میں امداد کا بڑا حصہ واپس چلا جاتا ہے۔ غیر ملکی امداد کے ہاتھ کئی ایڈوائزز بھی آتے ہیں ہم اس امداد کو آزادی سے استعمال نہیں کر سکتے۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان ہالینڈ میں سفیر مقرر ہوئیں۔ ایک محل انہیں تحفے میں ملا تو انہوں نے وہ محل پاکستانی سفارت خانے کو دے دیا۔ خودداری کے لئے خودکفالت بہت ضروری ہے۔ ہمیں غیر ملکی امداد ترک کر کے خود انحصاری پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں بہت لوگوں کی ماہانہ آمدنی 20 ہزار روپے بھی نہیں ہے اور یہاں ایک وقت کے کھانے کے لئے 20 ہزار روپے اڑا دئیے جاتے ہیں۔ شاید ضیا شاہد آج کل واحد ایڈیٹر ہیں جنہوں نے مختلف موضوعات پرکتابیں لکھی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک بہت اعلیٰ اور جرات مندانہ کتاب ”باتیں سیاستدانوں کی“ شائع ہوئی ہے۔ جس میں ایوب خان سے لے کر عمران خان تک قابل ذکر اور اہم سیاستدانوں کے حوالے سے کھل کر لکھا گیا ہے۔ دلچسپ یادیں اور سیاستدانوں سے ملاقاتوں کے تذکرے تاریخی حقائق پہلی بار منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ یحیٰی خان، بھٹو، شیخ مجیب، اصغر خان، نواب زادہ نصراللہ ، سید مودودی اور ضیاالحق کے علاوہ بھی کئی شخصیات کے لئے قلم اٹھایا گیا ہے یہ کتاب ہماری سیاسی تاریخ کا منظر نامہ سامنے لاتی ہے۔ ہمارے عہد کے کچھ بڑے صحافی دولت اکٹھی کرنے میں لگ گئے ہیں اور حکمرانوں سے ان کے روابط آخری حدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ ضیاءشاہد نے سب کچھ حاصل کر لیا اور صحافت کی اعلیٰ منزلوں کو بھی چھو لیا۔ خودداری، صحافیانہ غیرت کو بھی سامنے رکھا۔
وہ ایک ورکنگ جرنلسٹ ہیں۔ ایک کامیاب صحافی سے سفر شروع کیا اور اب وہ ایک بہت وسیع اخبار کے ایڈیٹر ہیں عربی میں ایم اے کرنے والا شخص کس روانی اور آسانی سے اردو لکھتا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024