پوری دنیا کے حاجیوں کو دلی مبارکباد، اور خاص طور پر ان صحافی دوستوںکوخصوصی تہنیت جو سعودی فرمانروا ،خادم حرمین شریفین کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے اللہ کے گھر جانے کی سعادت سے سرفراز ہوئے ۔ اس سال کا حج غیر معمولی طور پر سکون سے مکمل ہوا، خدائے بزرگ و برتر کاانعام ہے کہ اس نے اپنے مہمانوں کی حفاظت فرمائی،ا س میں مملکت سعودیہ کا بھی اہم کردار ہے جو ہر سال نئے سے نئے انتظامات کرتی ہے، حاجیوں کی آسائش کا خیال بھی رکھتی ہے ا ور ان کی سیکورٹی کے انتظامات پر بھی بھر پور توجہ دیتی ہے۔
صحافیوں کی ملاقات شاہ سلمان سے بھی ہوئی جس میں شاہ سلمان نے فرمایا کہ حج کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے، اگرچہ انہوںنے کسی کا واضح طور پر نام نہیں لیا مگر گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ ایران نے یہ جو تجویز پیش کی کہ حرمین شریفین کو امت مسلمہ کے اجتماعی کنٹرول میں دیا جائے۔ یہ تجویز اس لئے ناقابل عمل ہے کہا اس کا کوئی سرا نہیں۔ایران میں بھی مقدس مقامات ہیں، عراق میں ہیں، شام میں ہیں تو انہیں کس کے کنٹرول میں دیا جائے گا، ادھر سکھ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ننکانہ ، حسن ابدال،ایمن ا ٓباد، نارووال کو ان کے کنٹرول میں دیا جائے، بدھ مت کے پیرو کار ٹیکسلا کا کنٹرول مانگ سکتے ہیں اور پتہ نہیں موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے وارث کہاں سے نکل آئیں۔کٹاس مندر کے لئے ایڈوانی کا مطالبہ آجائے گا، یہ تو دنیا کا شیرازہ بکھیرنے کے مترادف ہے،ا سلئے جو انتظام چل رہا ہے، اسے برداشت کرنا چاہئے، ہاں۔ زیادہ سہولتوں کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے ا ور سعودی عرب تو اس سلسلے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتا، مجھے امید ہے کہ برادرم سعید آسی اور جاوید صدیق حج کا سفر نامہ لکھیں گے تو نئی سہولتوں اور آسائشوں پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
ہمیں سعودی عرب کی سیکورٹی کو لاحق خطرات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے مگر ان کے باوجود خادم حرمین شریفین نے حرم کی تو سیع و تزئین کا کام زور شور سے جاری رکھا ہے، پچھلے رمضان شریف میں مسجد نبوی ﷺ کے سامنے دہشت گردی کا ارتکاب ہوا مگر سعودی سیکورٹی کے اوسان خطا نہیں ہوئے حالانکہ وہ یہ سب کچھ ان کے لئے ایک نیا فینومینا ہے۔ دہشت گردی کے وقت مسجد میں لاکھوں افراد نماز تراویح ادا کر رہے تھے، کوئی خطرے کا الارم نہیں بجا ، نہ بھگدڑ مچی، ہر ایک اپنے رب کے سامنے خشو ع و خضوع سے سر بسجود رہا۔
یمن کا مسئلہ سعودی عرب کے لئے نئی درد سری ہے۔ سعودی عرب کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا کہ یمن تو محض ایک بہانہ ہے، اصل میں اسے ٹارگٹ کرنا مقصود ہے اور سعودی عرب کی مختلف مساجد میں پے در پے دھماکوںمیں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ جدہ کا دھماکہ تو ایک بڑے خطرے کی علامت تھا۔مگر سعودی حکومت نے چوکسی کا مظاہرہ کیاا ور مزید کوئی نقصان نہیںہونے دیا۔یمن کے مسئلے سے نبٹنے کے لئے بھی سعودی عرب نے سولو فلائٹ کے بجائے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ ابتدائی طور پر اس میں صرف خلیجی ممالک تھے اور ان کی تعداد تیرہ چودہ کے قریب تھی، پھرا سے وسعت دی۔اور اب اس اتحاد میں چونتیس ممالک شریک ہیں۔وقت کے ساتھ یمن کا تنازعہ دب گیا ہے اور اسے مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔پاکستان سے وزیر اعظم نوازشریف نے سعودی عرب کے کئی دورے کئے، جنرل راحیل شریف بھی ان کے ہمراہ تھے، سعودوی وزیر دفاع بھی پاکستان تشریف لائے ۔ میرا انداز ہ ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کو یقین دلایا ہے کہ ا س کی خود مختاری، سلامتی ا ورا ٓزادی پر کوئی آنچ آئی تو پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔
حرمین شریفین کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کے لئے سعودی سرزمین سے عقیدت ہے مگر ماضی کی ساری سعودی حکومتوںنے جس طرح دل کھول کر مسلمانوں کی مدد کی ہے، یہ مدد مالی بھی ہے، اخلاقی بھی ہے ا ور سفارتی بھی ہے، اس نے سعودی عرب کے احترام میں اضافہ کیا ہے، پاکستان کوتو کئی برس تک پٹرول فری ملتا رہا اور اب نواز شریف حکومت کی ابتدا میں زرمبادلہ کے مسائل حل کرنے کے لئے سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ پیش کیا۔پاکستان میں زلزلہ آئے، سیلاب تباہی مچائے ، مہاجرین کے مسائل ہوں، سعودی عرب نے فراخدلی کا ثبوت دیا، بالا کوٹ کا پورا شہر زلزلے میں نابود ہو گیا، سعودی عرب نے اس کی تعمیر نو کی پیش کش کر رکھی ہے ۔ بھٹو دور میں اسلامی کانفرنس لاہور میںمنعقد ہوئی تواس میں شاہ فیصل بذات خود تشریف لائے اور بادشاہی مسجد میںنماز کی ادائیگی کے بعد کشمیر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی گئی تو شاہ فیصل کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ یہ منظر پاکستانی مسلمانوں اور کشمیری بھائیوں کو کبھی نہیں بھولے گا۔
جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت معزول کی اور انہیں جیلوں اور قلعوں میں بند کیا تو سعودی عرب ان کی دست گیری کے لئے آگے بڑھا، انہیں جدہ میں رہائش کے لئے شاہی محلات پیش کئے، کاروبار کے لئے سہولتیں فراہم کیں۔میاںنواز شریف کے چاہنے والے اور عام پاکستانی جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ، سعودی عرب کے ا س اقدام کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
یوں تو پاکستان میں تمام دوست ممالک کے سفارت خانے اپنے قومی دن کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں مگر چین ، جاپان اور سعوی عرب کے قومی دن کی اہمیت ہی اور ہے۔ سعودی عرب کے سفیر کی پاکستان میںخصوصی طور پر عزت کی جاتی ہے، ان کی یاد میں سڑکوں کے نام بھی رکھے گئے ہیں، بھٹو اور پی این اے کے مابین مذاکرات میں بھی سعودی سفارت کار نے اہم کردارا دا کیا تھا۔سعودی سفارت کار پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔میاںنوازشریف ذاتی طور پر سعودی عرب سے بے حد متاثر ہیں، پچھلے ایک دور میں انہوںنے سعودی طرز کانظام روشناس کرانے کی خواہش ظاہر کی تھی، بہر حال نواز شریف کی وجہ سے پاکستان ا ورسعودی عرب میں قربت کے رشتے مستحکم تر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
سعودی عرب کے قومی دن کی خوشیوں میں ہرپاکستانی عوام دل وجان سے شریک ہے اور خدا نخواستہ کوئی ببرا وقت آیا تو پاکستانی عوام سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
برادرم سعید آسی نے اپنے مشاہدات حج کی اقساط شروع کر دی ہیں،یہ انتہائی پر کیف سفرنامہ ہے، میں ان کے الفاظ نقل کرتے ہوئے اپنی معروضات ختم کرتا ہوں:
فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران شرف انسانیت کے لا فانی مظاہر کو اپنی آنکھوںمیں سموتے اور رب کائنات کی فیوض و برکات کے سدا بہار چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے واپس لوٹا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنا دل اورا ٓنکھیں وہیں چھوڑ آیا ہوں۔
میں یہ اضافہ کرنے کی جسارت کروں گا کہ دل میں خدا ئے عز وجل نے بسیرا کر لیا ہے اور آنکھوں میں خاک مدینہ کی تب وتاب!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38