نیب کی جانب سے کرپشن کے 150 میگا سکینڈلز کی فہرست پیش کئے جانے سے یہ بات سامنے آگئی کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز براہ راست کرپشن کے کسی کیس میں ملوث نہیں پائے گئے اور سیاسی مخالفین بھی ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا پائے جبکہ 1985ءسے 2015ءکے دوارن 30 سال کے عرصے میں جتنے بھی سیاسی وزرائے اعظم آئے ان میں محمد خان جونیجو، معین قریشی، غلام مصطفی جتوئی، شوکت عزیز، ظفر اللہ جمالی کو چھوڑ کر باقی سب کے سب مختلف کرپشن کیسز کا سامنا کرتے رہے ہیں جن میں شہید بے نظیر بھٹو اور موجودہ وزیراعظم نوازشریف بھی شامل ہیں۔ نگراں وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کو بھی نیب کیسز کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1947ءسے لے کر 1958ءتک جتنے وزیراعظم آئے کسی پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔1958ءسے1971ءتک جنرل ایوب اور پھر جنرل یحییٰ پر بھی مالی کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔ 1971ءسے 1977ءتک ذوالفقار علی بھٹو بھی کرپشن کے الزامات سے بچے رہے۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں کرپشن نے سیاست دانوں کو گھیر لیا خود جنرل ضیا پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، محمد خان جونیجو بھی صاف ستھرے کردار کے مالک شریف وزیراعظم تھے۔ نیب کی رپورٹ کے مطابق وزرائے اعظم کی فہرست میں نواز شریف ، چودھری شجاعت حسین، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور متعدد وزرائے اعلیٰ کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر ”مقدس گائے“ کے خلاف کس کی جرات کہ کرپشن مقدمات بنائے یا الزامات لگا سکے ؟ عمران خان کا نعرہ کرپشن کا ٹارگٹ فقط نواز شریف ہیں ؟ گلہ پھاڑنے اور دھرنوں سے نواز شریف گھر نہےں بھیجے جا سکتے اور نہ ہی احتساب کی یہ سیاسی چالبازی متاثر کن ثابت ہو سکتی ہے جب تک سیاستدانوں کے ساتھ مقدس گائے بھی احتساب کے کٹہرے میں نہیں لائی جائے گی۔ لیکن عمران خان کسی مقدس گائے کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ اپنی بغل میں ایک سے ایک بڑھ کر کرپٹ لوٹا لئے کھڑے اپوزیشن کی کرپشن کو للکارتے ہےں۔ بلا شبہ سیاستدانوں کی زندگیوں میں جو بدنامی ان کے حصہ میں آئی وہ بقیہ 86.67 فیصد مقدمات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور اس مرتبہ سپریم کورٹ بھی پاناما کیس پر سنجیدہ دکھاءدیتی ہے۔ نیب میں زیرِالتوا کیسز میں مالی بے ضابطگیوں،اختیارات کے ناجائز استعمال اور زمین کی خوردبرد کے مقدمات شامل ہیں۔ان میں سے اکہتر کیسز پہلے مرحلے میں ہیں یعنی ان پر ابھی تحقیق کی جارہی ہے۔اکتالیس کیسز تفتیش کے مرحلے میں ہیں جبکہ صرف اڑتیس کیسز کے ریفرنس تیار کئے گئے ہیں یعنی یہ مقدمات آخری مراحل میں ہیں۔
نیب نے تقریباً پندرہ سال سے زیرالتوا مقدمات کی یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر جمع کروائی جس میں عدالت عظمیٰ نے نیب کے حکام سے پوچھا تھا کہ انھوں نے ملک کے کتنے بااثر افراد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کیلئے تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔نیب کی یہ رپورٹ اس ادارے کی ناقص کارکردگی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔قومی احتساب کا یہ ادارہ خود احتساب کی زد میں ہے۔دوسری طرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 2007 میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی(CDA) کی طرف سے زمین کی خورد برد کرنے والے 47 فوجی افسران کے خلاف جو لِسٹ جمع کروائی تھی ا±س پر سپریم کورٹ نے کیا کارروائی کی۔ ان فوجی افسران نے مبینہ طور پر دارلحکومت اسلام آباد کے اطراف میں سبزیاں ا±گانے اور باغات بنانے کے نام پر CDA سے سستے داموں زمین خریدی اور بعد میں بعض افسران نے اس زمین کو انتہائی مہنگے داموں بیچ دیا اورسابق آرمی چیف پرویز مشرف سمیت بعض فوجی افسروں نے وہاں فارم ہاوسز بنائے اور رہائش اختیا کر لی۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ منظور احمد غوری کی طرف سے نیب حکام کے خلاف دائر کئے گئے کیس کی سماعت کر رہا ہے۔رواں برس کے آغاز میں شروع ہونے والے اس کیس میں نیب کی کارکردگی کو نشانہ بنایا۔نیب کی اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر بھی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔اس رپورٹ میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا نام بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق سابق صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے ظاہر کیے گئے آمدن کے ذرائع سے 22 ارب روپے سے زیادہ کمائے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر توقیر صادق کی بطور چیئرمین تعیناتی کے علاوہ کرائے کے بجلی گھروں کے ٹھیکوں میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے علاوہ ظاہر کیے گئے آمدن کے ذرائع سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کا الزام ہے۔
قومی احتساب بیورو کی اس رپورٹ میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے علاوہ سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاو¿، سابق وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی شامل ہیں۔ان افراد پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے جبکہ حسین حقانی پر الزام ہے کہ انھوں نے بطور سیکریٹری اطلاعات تین مختلف کمپنیوں کو لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں ایف ایم ریڈیو سٹیشن کے لائسنس قواعد وضوابط سے ہٹ کر جاری کیے۔اس رپورٹ میں بیورو کریٹوں کے خلاف زیر تفتیش مقدمات کا بھی ذکر ہے۔ ان بیوروکریٹس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین عبداللہ یوسف، ارشد حکیم اور سلمان صدیق کے علاوہ پانی و بجلی کے سابق سیکریٹری شاہد رفیع اور اسماعیل قریشی شامل ہیں۔نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اس فہرست میں جن افراد کے خلاف تفتیش شروع کی گئی ہے ان میں زیادہ تر کاروائیاں سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی گئی ہیں، جبکہ اس میں متعدد ایسے بھی مقدمات ہیں جن کی تفتیش نیب کے ذرائع کی اطلاعات پر شروع کی گئی۔نیب کی رپورٹ میں فوج کے ریٹائرڈ جنرل سعید ظفر کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے ریلوے کے چیئرمین کی حیثیت سے رائل پام گالف کلب کی تعمیر کے لیے 103 ایکڑ سرکاری اراضی الاٹ کی تھی۔جب فوجی افسروں کے احتساب کی بات آتی ہے وہاں سب ادارے خاموش ہوجاتے ہیں۔مثلاً سنہ 2007 میں سی۔ڈی۔اے نے سپریم کورٹ میں 47 ایسے فوجی افسران کی لِسٹ جمع کروائی تھی جنہوں نے مبینہ طور پر دارلحکومت اسلام آباد کے اطراف میں سبزیاں اور باغات ا±گانے کے نام پر CDA سے سستے داموں310 ایکڑ خریدی گئی اس زمین کو انتہائی مہنگے داموں بیچ دیا اورسابق آرمی چیف پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت بعض فوجی افسروں نے وہاں فارم ہاوسز بنائے۔اس زمین کی قیمت اربوں روپے بنتی ہے۔اس زمین کی الاٹمنٹ کے وقت ظاہر کیا کہ خریدار عام لوگ ہیں جوجڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کو سبزیاں اور پھل مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ان فوجی افسران کو چک شہزاد اور آرچرڈ سکیم مری روڈ اور بعض دیگر مقامات پر زمین الاٹ کر دی گئی۔لیکن بعد ازاں زیادہ تر افسران نے سستے نرخوں خریدی گئی اس زمین پر بھاری منافع کمایا۔اس فہرست میں جنرل مشرف کے علاو¿ہ ا±س وقت کے آئی۔ایس۔آئی چیف اور پانچ سابق فوجی جرنیل بھی شامل ہیں۔سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ نیب پر دباو¿ بڑھائے کہ وہ مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے۔کیا سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں المعروف " مقدس گائے " کا احتساب بھی ممکن ہو سکے گا؟ عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ کوئی ایک ادھ دھرنا اپنے پرانے لیڈر سابق جنرل پرویز مشرف کی کرپشن اور دہشت گردی کے خلاف بھی دے ہی ڈالیں تا کہ تحریک انصاف کی سیاست غیر متعصب معلوم ہو سکے۔