اچھا اقدام قابل تعریف ہوتا ہے۔ طاہر القادری کے ساتھ کی گئی ’’دیت‘‘ یا ’’ڈیل‘‘ کامیاب رہی اور دھرنے والے آزاد ہو گئے۔ ہم پہلے ہی لکھ چکے تھے اور ہماری اطلاع کی تردید بھی نہیں کی گئی تھی لہٰذا ہمیں اطمینان تھا کہ دھرنا بازار عنقریب بند ہونے والا ہے اور جو لوگ ڈی چوک پر ابھی بھی اکٹھے ہو رہے ہیں وہ رات کو چند گھنٹے کے لئے بطور تفریح باہر آتے ہیں لہٰذا پریشانی کی بات نہیں۔ البتہ قادری دھرنے کا اُٹھ جانا ٹھہر گیا تھا اور ہم نے گزشتہ ایک کالم میں لکھ دیا تھا کہ ‘‘باوثوق ذرائع کے مطابق مولانا طاہر القادری نے واقعہ ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونے والے افراد کی ’’دیت‘‘ کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ جھوٹ کے ماہر تردید ہی کریں گے مگر ضمیر اور حق کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔ ہم نے بہت پہلے انکشاف کر دیا تھا کہ ماڈل ٹائون کا واقعہ ایک ملی بھگت سازش، سوچا سمجھا منصوبہ ہے، امپائر کی انگلی اٹھنے اور قربانی سے پہلے قربانی کا آغاز ماڈل ٹائون واقعہ کی قربانی سے کیا گیا۔ ہم نے بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ منصوبے کے مطابق پی ٹی آئی اور قادری کے لوگ مروائے جائیں گے اور پھر معاملہ وہاں تک جائے گا جہاں تک دنیا نے جاتا دیکھا، نعرہ انقلاب نعرہ خون بہا کی صورت اختیار کر جائے گا۔ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہنگامی صورتحال میں فوج کو بلانے کی کوشش کی جائے گی، پھر غیر سیاسی افراد یا بقول خان کے ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی، مڈٹرم الیکشن کا اعلان ہو گا اور پھر عمران خان کو ’’دوسری بار‘‘ قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور بے نظیر کی تاریخ دُہراتے ہوئے (میرے منہ میں خاک) عمران خان کی تعزیت کے ووٹ حاصل کرکے شاہ محمود قریشی وزیراعظم بننے کا خواب پورا کر ے گا‘‘ ۔۔۔ اگر جاوید ہاشمی بروقت پلان بے نقاب نہ کرتے تو ملک مصر کا نقشہ پیش کرتا۔ قادری صاحب کو دھرنا لپیٹ کر گھر جانا ہی تھا بلکہ عنقریب کینیڈا واپس تشریف لے آئیں گے، طبعی علاج اور دیگر معاملات کی وجہ سے مہینوں ملک سے باہر رہنا ان کے لئے مناسب نہیں۔ قادری صاحب جس حد تک ملک کو نقصان پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچا دیا۔ عمران خان اگر مڈ ٹرم الیکشن کرانے میں کامیاب ہو گئے تو قادری صاحب تحریک انصاف کی حمایت کے بغیر دو سیٹیں بھی نہیں جیت سکیں گے۔ قادری خان اتحاد مڈٹرم الیکشن کی صورت میں قائم ہے اور تحریک انصاف کی کامیابی ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا معاملہ پیش کر رہی ہے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا کہ عمران کی ضد اگلے سال الیکشن کرانے میں کامیاب ہو سکے گی یا انہیں کوئی نیا منصوبہ تیار کرنا پڑے گا۔ قادری سے کسی حکومت کو خطرہ لاحق نہیں رہا۔ ان کی عادات اور معاملات کو سب سمجھتے ہیں البتہ عمران خان کو گھر بھیجنا آسان نہیں، ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ ہمت نہ ہاری جائے۔ تحریک انصاف کے جلسوں کے نتائج کا حاصل مڈٹرم الیکشن ہے لیکن حکومت بجلی کے بلوں اور مہنگائی پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئی تو حکومت کی رخصتی کا امکان بھی ٹل جائے گا۔ پاکستان کی اکثریت کا لیڈر ’’ضروریات زندگی‘‘ ہے۔ جو یہ پوری کر دے، عوام اس کے ساتھ ہیں۔ تحریک انصاف بھاری تعداد میں جیت جائے تب بھی کچھ قوتیں عمران خان کو وزیراعظم بننے نہیں دیں گی۔ یہ وہ اہم نقطہ ہے جس کی آس میں شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وزارت عظمیٰ پانے کے لئے شاہ محمود قریشی فوج کا تابعدار ہے۔ قریشی تحریک انصاف کے کاندھے پر سوار ہو کر وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ مگر یہ بات نہ عمران خان سمجھنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف کے دوسرے لوگ سمجھنا چاہتے ہیں۔ قریشی اور شیخ رشید آستین کے سانپ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ قریشی کو مل جائے اور عمران خان سونیا گاندھی کا کردار نبھائے۔ میاں نواز شریف کی یہ آخری باری ہے، اپنے وزیروں کو طنزیہ بیانات سے منع کریں اور انہیں کام کی طرف دھیان دینے کا حکم دیں۔ بیوروکریسی اور میڈیا کے منہ کو جو کرپشن لگا دی ہے، وہی منہ اب ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ ہم تو یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ حکومت آج گھر جائے یا کل جائے، کم از کم ذلیل ہو کر نہ جائے۔ حکومت کے پاس ابھی وقت ہے بجلی کے بل اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ قوم مر رہی ہے، اس کی بد دعائیں نہ لے، لیپ ٹاپ، پُل، بڑے بڑے منصوبے اور ڈالر کی قیمت میں کمی جیسے معجزوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ حکومت اپنی پالیسیاں درست کرے ۔ حکومت کے اندر سے لوگ ان کے خلاف ہیں ۔ نواز شریف نے قادری کو زمین پر پٹخ دیا تو عمران خان نے اٹھا کر گلے لگا لیا۔ خان صاحب کے جلسے اچھے جا رہے ہیں، خطابات بھی مؤثر ہیں، ماحول بھی گرما گرم ہے، پارٹی کی کامیابی بھی ممکن ہے لیکن عمران خان کے لئے وزارت عظمیٰ کا عہدہ مشکوک ہے۔ جتنا وزارت عظمیٰ کی کرسی کے قریب جاتے ہیں وہ اتنا دور بھاگتی ہے۔ ہم دل سے چاہتے ہیں عمران خان کو ایک بار ضرور موقع ملنا چاہئے تاکہ نوجوانوں کی امیدوں کو ’’ٹھنڈ‘‘ پڑ سکے مگر کچھ قوتیں عمران خان کے جذبات کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ ہماری ایک دوست کا اسلام آباد سے فون آیا کہ اسلام آباد کا نقشہ آ کر دیکھو! اور پھر اسلام آباد کا جو نقشہ اس نے کھینچا، قادری صاحب کے جانے پر ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں! البتہ عمران خان کی رونق پر کسی کو اعتراض نہیں بلکہ دوست بتا رہی تھی کہ اکثر شام کو وہ بھی تیار ہو کر رونق دیکھ آتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38