مسٹر نظریہ پوچھ رہے ہیں “مجھے کیوں نکالا “۔۔۔۔جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف بھی تو یہی پوچھ رہے ہیں کہ “ مجھے کیوں نکالا “۔۔۔ جنرل مشرف بھی فضا میں مکے گھما گھما کر اپنی پاور شو کیا کرتے تھے۔ وہ بھی پاکستان کے طاقتور صدر تھے۔ لیکن اب کہاں ہیں؟جنرل مشرف بھی خود کو نظریئے سمجھتا تھا۔ جنرل ایوب خان بھی نظریہ تھا۔ جنرل ضیا بھی نظریہ تھا۔ بھٹو بھی نظریہ تھا۔ بھٹو کی بیٹی بھی نظریہ تھی۔نواز شریف بھی خیر سے نظریہ بن گئے ہیں۔ پہلے والے سب نظریہ کہاں گئے ؟ نظریہ تو پاکستان تھا جس کو طاقت کے نشہ نے بد دیانتی کی چکی میں پیس ڈالا۔پاکستان نظریاتی ریاست کہلاتی تھی۔ پاکستان کا وجود نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔موجودہ پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار نہیں دیاجا سکتا۔جو آیا اس نے سب سے پہلے پاکستان کے نظریہ کا سودا کیا۔اصل نظریاتی لوگ قبروں میں چلے گئے۔ چند ایک دیے ٹمٹما رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے یہ ٹمٹماتے چراغ حلفیہ کہتے ہیں کہ موجودہ پاکستان میں نہ کوئی لیڈر ہے نہ قائد نہ نظریہ نہ جذبات نہ جوش و ولولہ والے عوام۔ اب جو حالات بن رہے ہیں اس کے تناظر میں مسئلہ کشمیر بھی دفن ہو جائے گا۔پاکستان میں فقط ایک ہی نظریہ متحرک ہے اور وہ ہے “ نظریہ طاقت۔۔۔ ساری لڑائی طاقت کے حصول کی ہے۔ سارا رولا پاور کا ہے۔ نظریہ اقتدار کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں۔ نواز شریف سے پہلے جتنے گزر ے ان سب کا نظریہ بھی طاقت تھا۔ وردی اور سوٹ والے سب کا نظریہ حصول پاور رہا ہے۔دولت کے ساتھ طاقت نہ ملے وہ دولت بغیر نشہ کے شراب ہے۔ جو نشہ پاور میں ہے دولت میں کہاں۔ اور جب دولت اور طاقت یکجا ہو جائیں تو زمین پر خدائی کا نشہ ہی کچھ اور ہے۔ایک صوبائی وزیر کے چوکیدار کا غرور مان نہیں تو وزیر کا نشہ کیا ہو گا۔ وفاقی وزیر کا نشہ اس سے بڑ ھ کر ، وزیر اعلی کی طاقت کا نشہ مت پوچھو اور وزیر اعظم کی پاور کا نشہ خدا کی پناہ۔۔۔ نظریہ بھٹو پھانسی چڑھا دیاگیا۔ نظریہ ضیا فضا میں اڑا دیا گیا۔ نظریہ بی بی گولی سے بجھا دیا گیا۔نظریہ مشرف ملک سے بھگا دیا گیا۔اور نظریہ نواز شریف اپنی حکومت ہوتے ہوئے عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہاہے۔نظریہ طاقت نظریہ ضرورت کا غلام ہوتا ہے۔ تقریر لکھنے والے اپنی دیہاڑی بناتے ہیں ورنہ وہ جانتے ہیں کہ وہ نظریاتی جھوٹ لکھ رہے ہیں۔ پاکستا ن صرف ایک نظریہ کو جانتا اور مانتا ہے اور وہ دو قومی نظریہ ہے۔ جو بھارت کا یار ہے وہ غدار ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کے تو کھوٹے سکے نظریہ ہو گئے ؟واہ۔۔۔کیا مذاق ہے اس ملک اور اس کے لوگوں کے ساتھ۔مسلم لیگ رہی نہ نظریہ باقی رہا۔ یہ سب نظریہ ضرورت کی پیداوار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے چوزے جب انڈے دینے کے قابل ہو جاتے ہیں تو بڑی بڑی چھوڑنے لگتے ہیں۔ کسی کے آنے یا جانے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔پاکستان نے سب کو بہت عیش کرائے ہیں۔ اب حساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ پاکستان کرپشن کی جس سطح تک پہنچ چکا ہے اس سے آگے اور کہاں تک جائے گا۔ جب تک عدلیہ آزادانہ اور جراتمندانہ فیصلے نہیں کرے گی پاکستان ڈوبتا چلا جائے گا۔ تمام اداروں میں جھاڑو پھیرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام اداروں میں کرپشن کے پرانے پاپی کیفر کردار تک نہیں پہنچا دئیے جاتے اس ملک کا نظام پاک نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کسی کا محتاج نہیں۔ ان لوگوں کا اقتدار کا نشہ ٹوٹ رہا ہے۔ پاور جاتی نظر آرہی ہے۔ جمہوریت بچانے کا ڈھونگ کس کے ساتھ ؟ پاکستان میں جمہوریت آئی کب تھی ؟ سب نظریہ طاقت کے پجاری ہیں۔بہت سے گزر گئے بہت سے گزر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭