سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹ ملکوں کے حکمران طویل عرصہ تک اقتدار پر براجمان رہتے تھے۔ سویت یونین جہاں دنیا کا پہلا کمیونسٹ انقلاب برپا کیا گیا تھا میں کمیونسٹ پارٹی آف سویت یونین کے لیڈر کئی عشروں تک صدارت اور وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر فائز رہے۔ چین میں بھی ما¶زے تنگ کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد چینی انقلاب کے بانی 1949ءسے 1976ءتک چین کے سربراہ رہے۔ 1976ءمیں ان کے انتقال کے وقت ان کی عمر 82 سال تھی۔ ان کے معتمد اور دست راست چین کے سابق وزیراعظم چو این لائی 1949ءسے 1976ءتک چین کے وزیراعظم رہے۔ ان کے انتقال کے وقت ان کی عمر 78 برس تھی۔ سویت یونین کے لیڈر لینن‘ سٹالن‘ برزنیف‘ چیری ننکو وزیراعظم کوسیجین طویل عرصہ تک سویت یونین کے حکمراں رہے۔ مغربی ممالک کمیونسٹ ملکوں کی قیادت پر یہ پھبھتی کستے تھے کہ ان کی قیادت عمر رسیدہ ہے۔ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں ستر اور اسی کی دہائی میں امریکی اور مغربی ملکوں کے اخبارات کمیونسٹ ملکوں کی قیادت کو Octogenarian کہتے تھے۔ یعنی وہ لیڈر جن کی عمریں اسی اور نوے کے درمیان تھیں۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد سویت یونین اور دوسرے کمیونسٹ ملکوں میں عمر رسیدہ لیڈروں کی جگہ نئے چہرے سامنے آتے گئے۔ چین میں ما¶زے تنگ ‘ چو این لائی اور ان کے ساتھیوں کے بعد ڈینگ پا¶ پنگ‘ ماوزے تنگ دور کے لیڈر کچھ عرصہ تک اقتدار میں رہے لیکن اس کے بعد چین میں قیادت نئی نسل کو منتقل ہوتی گئی۔ چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ 1953ءمیں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر 64 برس ہے۔ چین میں آنے والے سالوں میں قیادت نوجوانوں کو منتقل ہو گی۔
عرب ملکوں میں جہاں بادشاہتیں قائم ہیں وہاں شاہ اور شیوخ اور ریاستوں کے امراءطویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کا رجحان ہے۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل‘ شاہ فہد‘ شاہ عبداﷲ اور شاہ سلمان ستر اور اسی کے پیٹے میں حکمران بنے۔ دوسری عرب ریاستوں متحدہ عرب امارات میں شیخ زید بن سلطان النہیان کا شمار بھی بزرگ رہنما¶ں میں ہوتا تھا۔ ان کی جگہ اب ان کے بیٹے شیخ زید بن النہیان پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ جس طرح سابق کمیونسٹ ملکوں میں اب قیادت نوجوانوں کے ہاتھ چلی گئی ہے اسی طرح عرب دنیا میں بھی قیادت اب جواں سال حکمرانوں کے پاس آ رہی ہے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جب اقتدار سنبھالا تو شروع سے ہی یہ واضح ہو رہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ بدھ کے روز شاہ سلمان نے اپنے قریبی عزیز محمد بن نائف کو کرا¶ن پرنس کے منصب سے ہٹا دیا۔ ان سے وزارت داخلہ بھی واپس لے لی گئی۔ محمد بن نائف کی جگہ شاہ سلمان نے اپنے اکتیس سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو کرا¶ن پرنس مقرر کر دیا۔ عملاً اب سارے اختیارات محمد بن سلمان کے پاس چلے گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ ترکی کے صدر طیب اردگان‘ وزیراعظم نواز شریف سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سربراہوں نے محمد بن سلمان کو کرا¶ن پرنس بننے پر مبارکباد دی ہے۔ سعودی اخبارات کے مطابق ایڈوائزر کونسل کے 34 ارکان میں سے 31 ارکان نے محمد بن سلمان کی بیعت کر لی ہے۔ بدھ کے روز کرا¶ن پرنس محمد بن نائف کو بھی نئے کرا¶ن پرنس محمد بن سلمان کی بیعت لیتے ہوئے اور ان کو بوسہ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے بیٹے محمد بن سلمان کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ انہیں جلد ہی کرا¶ن پرنس نامزد کر دیا جائے گا۔ محمد بن سلمان خارجہ پالیسی کے میدان میں بڑے متحرک تھے۔ انہوںنے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد امریکہ کا دورہ کر کے ان سے وائٹ ہا¶س میں ملاقات کی تھی۔ حال ہی میں انہوںنے ماسکو کا دورہ کیا جہاں انہوں نے صدر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ سعودی عرب کے وزیر دفاع کا منصب بھی محمد بن سلمان کے پاس ہے۔ اس لحاظ سے سعودی عرب کی سلامتی کے تحفظ اور سکیورٹی پالیسیوں کی تشکیل میں وہ فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی معاشی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے لئے بھی اپنا ویژن دیا ہے جسے ویژن 2030ءکا نام دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں شاہراہوں پر پرنس محمد بن سلمان کی تصویروں والے ہوڈنگز اکثر نظر آتے ہیں جن میں ان کے سعودی عرب کے معاشی ویژن 2030 کی پبلسٹی کی گئی ہے۔ پرنس محمد سعودی عرب کی آمدنی کا انحصار تیل کی دولت پر ختم کر کے ملک کو ایک جدید صنعتی ملک بنانا چاہتے ہیں تاکہ اس کی آمدنی دوسری مصنوعات کی برآمد سے بڑھائی جا سکے۔ حال ہی میں سعودی عرب میں امریکہ اور اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس منعقد کرانے میں بھی پرنس محمد بن سلمان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
سعودی عرب کی قیادت اب عملاً ایک 31 سالہ نوجوان کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ سعودی عرب کے حریف ملک ایران کے میڈیا نے اس تبدیل کو "soft coup" ”نرم بغاوت“ کا نام دیا ہے لیکن خطے کے باقی ملکوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان پرنس محمد بن سلمان کی سعودی جوانوںکے احساسات اور نظریات کا ادراک رکھتے ہیں۔ ”ویژن 2030“ میں انہوں نے سعودی عرب کے نوجوانوں کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا ہے۔
پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا سربراہ بنوانے میں محمد بن سلمان نے اہم کردار ادا کیا۔ جواں سال پرنس محمد کی پالیسیوں کا عکس اگلے چند مہینوں اور سالوں میں واضح ہو جائے گا۔
ایک نشریاتی ادارے” بلومبرگ بزنس ویک“ کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان روزانہ 16گھنٹے کام کرتے ہیں وہ آنجہانی برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کی تحریروں سے متاثر ہیں۔پرنس محمد چین کے جنگی حکمت عملی کے ماہر سن زو کی ”آرٹ آف وار“ کا مطالعہ بھی کرتے ہیں سن زو نے کہا تھا کہ بہترین جرنیل وہ ہے جو گولی چلائے بغیر جنگ جیت لے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024