ایک خبر کے مطابق ’’پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن جناب آصف علی زرداری نے چند روز قبل لندن میں انتقال کر جانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن اور سابق رُکن قومی اسمبلی جناب مختار رانا کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ’’جناب مختار رانا کی پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘‘۔ جناب مختار رانا فی الحقیقت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے پارٹی کے لئے نمایاں خدمات بھی انجام دی تھیں۔ اِس سے پہلے رانا صاحب پاکستان میں صفِ اوّل کے مزدور رہنما تھے، پارٹی کے ابتدائی دَور میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو بائیں بازو کے جِن انقلابی لیڈروں کو اپنے قریب رکھتے تھے، اُن میں جناب مختار رانا،ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔
1970 ء کے عام انتخابات میں جناب مختار رانا لائل پور (فیصل آباد) سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ’’جناب ِ بھٹو ووٹ کے ذریعے انقلاب لے آئے ہیں‘‘۔ جناب مختار رانا پیپلز پارٹی کے اُن انقلابیوں میں سے تھے جنہوں نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ ’’قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی (شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ ) کو اقتدار منتقل ہونے دیا جائے اور ہمیں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر عوام کی نمائندگی کرنا چاہئے ‘‘۔ لیکن جناب ِ بھٹو کو یہ تجویز پسند نہیں آئی۔ سویلین چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو جناب مختار رانا نے ’’قائدِ عوام‘‘ کو دو اور مشورے دیئے۔ ایک یہ کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویزات اور پارٹی کے منشور کے مطابق مُلک سے جاگیرداری ختم کردی جائے‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ ’’انقلابی پارٹیوں کے دستور کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ انتخابات کرائے جائیں‘‘۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انقلابی ساتھی مختار رانا کے اِن دونوں مشوروں کو ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا اور پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر ملک غلام مصطفی کھر کو حکم دیا کہ ’’مختار رانا کو ’’out‘‘ کر دو! کھر صاحب اقتدار کے نشے میں پہلے ہی ’’out ‘‘ رہتے تھے۔ انہوںنے مملکتِ پاکستان کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کا مُجرم قرار دِلوا کر جناب مختار رانا کو مارشل لاء کے تحت 4 سال قیدِ بامشقت دِلوا دی اور رانا صاحب کو قومی اسمبلی کی نشِست سے بھی محروم کرا دِیا۔ اُن کی خالی نشِست پر جب ضمنی انتخابات ہوا تو جناب مختار رانا کی بہن (آزاد امیدوار) محترمہ زرینہ رانا کو ہروا کر چودھری محمد افضل احسن رندھاوا کو رُکن قومی اسمبلی منتخب کروا لیا۔
رانا صاحب نے مارشل لاء کے تحت پورے چار سال قید کاٹی۔ رہائی کے بعد جناب مختار رانا قومی اسمبلی کی لابی میں ’’بابائے سوشلزم‘‘ شیخ محمد رشید سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک وزیرِ اعظم بھٹو وہاں آ گئے۔ انہوں نے رانا صاحب سے زبردستی ہاتھ مِلایا اور پوچھا ’’ارے رانا! تم کہاں تھے؟‘‘۔ رانا صاحب نے جواب دیا کہ ’’جہاںآپ نے بھجوایا تھا‘‘۔ جنابِ بھٹو کو کھِسیانی ہنسی ہنسنے کا بھی موقع نہیں مِلا۔ یہ بات مجھے جناب مختار رانا نے خود بتائی تھی۔ رانا صاحب میرے بزرگ دوست تھے۔ میری اُن سے ملاقات پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے بہت پہلے 1960 ء میںلائل پور (فیصل آباد) کے روز نامہ ’’غریب‘‘ کے دفتر میں اخبار کے چیف ایڈیٹر چودھری ریاست علی آزادؔ (مرحوم ) نے کرائی تھی ۔ چودھری صاحب رانا صاحب کے قریبی رشتہ دار تھے۔
جناب مختار رانا کی خالی نشِست پر ضمنی انتخاب میں (پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار) چودھری افضل احسن رندھاواکو کامیاب کرانے کے لئے انتخابی مہم کے انچارج (سرگودہا سے میرے لڑکپن کے دوست) پنجاب کے وزیرِ اطلاعات و اوقاف چودھری ممتاز کاہلوں تھے۔ کاہلوں صاحب نے مجھے اپنے ساتھ لائل پور لے جانے پر اصرار کِیا لیکن میں نے اُن سے معذرت کر لی تھی۔ جناب مختار رانا وطن چھوڑ کر برطانیہ ( لندن) میں آباد ہو گئے تھے۔ تو میری اُن سے جناب حنیف رامے (مرحوم) کے ہفتہ وار ’’نصرت ‘‘ کے ایڈیٹر اور 1961ء سے سرگودھا کے میرے دوست سیّد علی جعفر زیدی کے ’’ڈیرے‘‘ پر کئی بار ملاقات ہُوئی۔
مشرقی پنجاب کے مہاجر جناب مختار رانا کہا کرتے تھے کہ ’’میں نے اور میرے بزرگوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں جانی اور مالی قربانیاں دے کر انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی لیکن مَیں پھر برطانوی شہری بن کر انگریزوں کی غلامی میں آگیا ہُوں‘‘۔ سیّد علی جعفر زیدی کے والد سیّد اکبر حسین زیدی بھی تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ اُن کے اور اُن کے خاندان کے دوسرے بزرگوں کے آل انڈیا مسلم لیگ کی سیکرٹری جنرل نوابزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ خاندانی تعلقات تھے۔ جب سیّد علی جعفر زیدی نے برطانوی شہریت اختیارکرنے کے لئے اپنے والد صاحب کو ورغلانے کی کوشش کی تو ٗ سیّد اکبر حسین زیدی نے کہا کہ ’’مَیں تو پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ہی دفن ہونا پسند کروں گا‘‘۔ مرحوم نے اپنا وعدہ بھی نِبھایا۔ جناب مختار رانا بھی شاید ایسا ہی کرتے اگر انہیں جلا وطن ہونے پر مجبور نہ کِیا جاتا۔آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ؔنے اپنے بارے میں کہا تھا کہ۔۔۔
’’کِتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ مِلی کُوئے یار میں ‘‘
11 اکتوبر 2008 ء کو میری اہلیہ (اپریل 1976ء میں پیپلز پارٹی پنجاب کی پہلی اور آخری منتخب سیکرٹری جنرل) بیگم نجمہ اثر چوہان کا انتقال ہُوا اُس روز بھی( اُن دِنوں صدرِ پاکستان) جناب آصف زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے میری اہلیہ مرحومہ کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے نمایاں خدمات انجام دینے کا اعتراف کرتے ہُوئے مرحومہ کی مغفرت کے لئے دُعا کی تھی۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر یہ خبر پڑھ اور سُن کر مَیں حیران ہُوا اور میرا دُکھ بھی تازہ ہو گیا۔ اِس لئے کہ پارٹی کے انتخابات میں بیگم نجمہ اثر چوہان نے بیگم نصرت بھٹو کی چہیتی راولپنڈی کی مِس ناصرہ کھوکھر کوشکست دے دی تھی لیکن ’’قائد ِعوام‘‘ نے اپنے دو چُغل خوروں ڈاکٹر مبشر حسن اور مولانا کوثر نیازی کے کہنے پر پنجاب اسمبلی کی نشِست پر میری اہلیہ کے بجائے شکست یافتہ مِس ناصرہ کھوکھر کو نامزد کردِیا تھا بیگم نجمہ اثر چوہان نے اُسی دِن پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں جناب مختار رانا سے بھی ملاقات نہیں کی تھی۔ 1993 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو مجھے عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر لے گئی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’کیا آپ کی بیگم دوبارہ پارٹی کے لئے کام کریں گی؟‘‘ مَیں نے کہا کہ وہ سیاست سے ریٹائر ہو گئی ہیں۔ جناب زرداری کا چونکہ اصلی پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ اِس لئے وہ ’’بھٹو گزیدہ‘‘ خواتین و حضرات کو بھی نہیں جانتے ورنہ وہ ’’گونگلواں توں مٹی لاہن لئی ‘‘۔ بیگم نجمہ اثر چوہان اور اُس کے بعد جناب مختار رانا کے انتقال پر تعزیتی بیان جاری نہ کرتے۔ مَیں سوچتا ہوں کہ فرض کِیا کہ ’’جناب بھٹو (اپنے سیاسی وارثوں کی خواہشات کے مطابق) جنت میں ہوں گے اور جب جناب مختار رانا سے اُن کی ملاقات ہوگی تو کیا وہ کہیں کہ ’’ارے رانا! تم کہاںتھے!؟‘‘
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024