عائشہ گلا لئی آجکل خبروں میں ہیں۔ وہ عمران خان کے لئے پریشانی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ پگڑی پہن کر قومی اسمبلی میں آئیں۔ کیمرہ ان پر اور ان کی پگڑی پر فوکس ہو گیا تھا۔ مجھے عائشہ گلا لئی پگڑی میں اور بھی اچھی لگی۔ جیسے کسی خوبصورت نوعمر نوجوان نے پگڑی باندھی ہوئی ہو۔ میں بھی پگڑی باندھتا ہوں۔ میری بیوی مجھے بتاتی ہے کہ اب پگڑی اچھی لگ رہی ہے۔ مجھے بالعموم تین چار بار پگڑی باندھنا پڑتی ہے۔
ایک بات عائشہ بی بی سُن لیں کہ ابھی اُنہیں اچھی طرح پگڑی باندھنا نہیں آیا۔
آج کل مردوں نے بھی پگڑی باندھنا چھوڑ دیا ہے۔ شاید ایک دلیر عورت کو پگڑی باندھے دیکھ کر وہ کچھ احساس کریں۔ میں نے اپنے گا¶ں موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں اپنے والد محترم کو پگڑی کے بغیر گھر سے باہر جاتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ وہاں مرد بالعموم پگڑی سر پر لیتے تھے۔ اب نہیں لیتے۔
سر پر ٹوپی بھی ٹھیک ہے، مگر پگڑی سے مردانہ وجاہت بڑھ جاتی ہے۔ عائشہ گلا لئی پگڑی میں بہت زبردست لگ رہی تھی۔ مردانہ وجاہت ایک چیز ہے تو زنانہ وجاہت بھی کوئی چیز ہے۔ میں ذاتی طور پر عائشہ گلا لئی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے قبیلے کے ایک سردار مولانا عبدالستار خان نیازی پگڑی باندھتے تھے وہ طرہ بھی رکھتے تھے۔ جب وہ انگلستان گئے تو اُن سے پوچھا گیا۔ کہ یہ طرہ کس طرح کھڑا ہے تو نیازی صاحب نے کہا یہ اپنے زور پر کھڑا ہے۔ میں طرہ نہیں رکھتا۔ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا، کہ میرے اندر کوئی طرہ¿ امتیاز نہیں ہے۔
ایک بار جنرل صدر مشرف نے کچھ صحافیوں کو ملاقات کی دعوت دی جن میں میرا نام بھی تھا۔ ملاقات سے پہلے ایک بریگیڈئر صاحب سے بحث ہو گئی انہوں نے سکیورٹی چیکنگ کے دوران پگڑی اتارنے کے لئے کہا۔ میں نے انکار کر دیا اور کہا۔ میں پگڑی خود اتارتا ہوں۔ یوں کسی کے کہنے پر پگڑی نہیں اتاروں گا۔ مجھے جنرل مشرف سے ملنے کا کوئی شوق نہیں، انہوں نے تو مجھے خود دوسرے صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی دعوت دی ہے، میں خدانخواستہ جنرل صاحب کے لئے سر میں کوئی بم چھپا کر کیوں لے جا¶ں گا۔ میں اپنے آپ کو جنرل صاحب سے زیادہ اہم آدمی سمجھتا ہوں۔ا
سکیورٹی چیکنگ کا یہ طریقہ شرمناک ہے یہاں کوئی آدمی کھڑا ہو جو سب کو جانتا ہو۔ ہم کوئی غیر معروف آدمی نہیں ہیں۔ یہ اجمل نیازی ہے، یہ عبدالقادر حسن ہے یہ عرفان صدیقی ہے۔ میں وہاں سے چلا آیا۔ مگر میرے پیچھے کئی باوردی لوگ آئے اور کہا کہ آپ واپس آئیں۔ اس طرح انکوائریاں شروع ہو جائیں گی۔ اور مجھے لے جا کے پہلی صف میں صدر جنرل مشرف کے سامنے بٹھا دیا۔ میں نے انہیں دیکھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ یہ جو نیچے والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ حکمران خود بھی اپنے آپ کو رسوا کرتے ہیں۔ انہیں بدنام کرنے میں ان لوگوں کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔
میری گزارش ہے کہ عائشہ گلا لئی اب ہمیشہ کے لئے پگڑی باندھا کریں۔ ورنہ ایک دن کے ڈرامے سے غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔ پھر لوگ سوچیں گے اور عمران خان کے حوالے سے ان کی بیان بازی بھی ڈرامہ سمجھیں گے۔
عائشہ نے تحریک انصاف سے استعفیٰ نہیں دیا اپنے آپ کو عارضی طور پر الگ کیا ہے۔ عائشہ نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ نہیں دیا۔ اس کے لئے تحریک انصاف کے لوگوں کے اصرار کے باوجود وہ ڈٹ گئیں۔ یہ بھی ان کی طرف سے اپنے موقف کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ پارٹی لیڈر سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اپنی پارٹی چھوڑ دے۔
ایک تازہ بیان میں عائشہ گلا لئی نے بڑی بے تکلفی سے باتیں کی ہیں: ”جلسوں میں شاہ محمود عورتوں کو میری بیٹیاں اور بہنیں کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔ عمران انہیں صرف ہماری خواتین کہتے ہیں“۔ پھر بھی مرد جلسوں میں اپنی خواتین لے آتے ہیں۔ عائشہ نے یہ بھی کہا کہ میرا کیس مونیکا لیونسکی کے ساتھ نہ ملایا جائے تو پھر عمران کو بھی کلنٹن کے ساتھ ملا کے مذاق نہ کیا جائے۔ عائشہ نے کہا عورتوں کو بھی عام الیکشن میں کم از کم دس فیصد ٹکٹ دیئے جائیں۔ میں عورتوں کو مکمل بااختیار بنانے نکلی ہوں۔ ”عمران خان نے اپنی شادی کو الیکشن سٹنٹ اور مذاق بنایا ہوا ہے۔ وہ اب کہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد شادی کریں گے“۔ عائشہ نے عمران خان کی شادی کی بات کیوں کی ہے؟