جو خیر خواہ سمجھانے کی کوشش کر تاہے ،اس پر ’’لفافہ‘‘ کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔گھٹیا انسانوں کے پاس جب جواز ،دلائل ، ثبوت ختم ہو جائیں تو وہ گھٹیا الزامات اور بیہودہ کلمات کا سہارا لیتے ہیں۔طلعت حسین نے درست کہا کہ’’ عمران خان چھ ماہ ٹھہر جائو پھر آپ کو ہمارے خلوص کا ادراک ہو گا۔ہمیں برا کہنے سے ہمارا نقصان نہیں ہو گا البتہ آپ اور آپ کی جماعت کی شہرت تاریخ میں لکھی جائے گی۔ کچھ اچھا کام کرتے ہیں تو کسی کو غصہ آتا ہے ۔یہ تاریخ میں نام لکھوائے جانے کی بات ہے ۔نام تو لکھے جاتے ہیں لیکن کس حوالے سے لکھے جاتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔نام تو مشرف کا بھی درج ہے ،نام تو ہٹلر کا بھی درج ہے ،نام مسولینی کا بھی درج ہے ،اصل سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ تاریخ کے ناموں میں فسادی بننا ہے یا اصلاحی اور امن کی علامت بننا ہے۔ آپ کے رویہ سے اس وقت جو چیز نکلے گی اس کا آپ کو اس وقت احساس نہیں،چھہ آٹھ ماہ بعدآپ کو پتہ چل جائے گا کہ کس نے کیاکھویا اور کیا پایا‘‘ ۔خان صاحب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ کے پاکستانی خان کو لفافے دیتے ہیں جس سے خان کے رفاعی اور سیاسی معاملات چلتے ہیں۔ عمران خان کینسرہسپتال اور اپنی پارٹی کے لئے امریکہ ہم پاکستانیوں سے عطیات لینے آتے ہیں،اللہ کا کرم ہے کہ ہمارا شمار عطیات دینے والوں میں ہوتا ہے۔ ہم شوکت خانم ہسپتال کے خیر خواہ ہیں مگر عمران خان کے کسی غیر آئینی ،غیر اصولی،غیر قانونی ،غیر مہذب،غیر دانشمدانہ،غیر اخلاقی اور غیر جمہوری اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے۔ ہمارے پورے خاندان کو عمران خان سے محبت ہے اور ہمارے خاندان اور قریبی دوستوں میں کئی افراد نے عمران خان کو ووٹ بھی دیئے ، آج یہی محبت ہمیں خون کے آنسو رُلا رہی ہے ۔عمران خان کے ساتھ ہمارے خاندان کا تعلق بیس سال پرانا ہے۔خان اپنے ’’غرور‘‘ اور ’’انا‘‘ سے خود بھی خائف تھے اور انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے دوران اپنے مزاج کو تبدیل ہوتے دیکھا مگر ’’فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی‘‘۔سیاست میں آئے تو عوام کا پہلا شکوہ خان کا ’’متکبرانہ مزاج‘‘ تھا۔خان نے خود کو سیاستدان بنانے کے لئے اپنے غرور اور انا کو دبانے کی بے حد کوشش کی۔گو کہ دل کے صاف ہیں مگر اس خوبی کا استعمال اگر مثبت انداز میں کیا جائے تو گھی ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنے کی ضرورت نہیں آتی ۔مشکل سے مشکل مسائل حکمت اور دانشمندی کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں۔جب عقل گھاس چرنے چلی جائے تو ’’دل‘‘ کون دیکھتا ہے ۔عمران خان سے محبت اب ’’ترس‘‘ میں ڈھل چکی ہے ۔آج عمران خان کی والدہ حیات ہوتیں تو بیٹے کو ضرور سمجھاتیں کہ ہر کام کا کوئی وقت ،اصول اور قانون ہوتا ہے ۔اگر نواز شریف بُرا ہے تو پتر توُ ہی عقل کر لے۔ایک دم سے طلاق کا مطالبہ کرنا کہاں کی حکمت عملی ہے ۔خان کی والدہ نے خان کو گوری سے شادی نہ کرنے کی تلقین کی تھی ۔آج خان کی ماں انہیں ضروربتاتی کہ بیٹا نہ تم گھر بچا سکے اور ہی سیاست ،ماں کی نصیحتیں بھی اس کے مرنے کے بعد یاد آئیں اور کتاب میں لکھ دیں،نیازیوں کی بہن بیٹیاں با پردہ خواتین ہیں ،تیری بہنوں اورخاندان کی خواتین نے کبھی جلسے جلوسوں میں جا کر ٹھمکے نہیں لگائے اور تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بہن بیٹیوں اور بڈھی مائوں کو سڑکوں پر نچوا رہاہے ؟ ٹرک پر چڑھ کر بہنوں کے رقص انجوائے کر رہاہے ؟ اور انہیں روزانہ خوش خبریاں سنا تاہے کہ آج فلاں میراثی آئے گا ،فلاں گویا آئے گا،فلاں سنگر آئے گا ،فلاں فنکار آئے گا،اور ٹرک پر ٹہل ٹہل کر انہیں جوش دلا رہاہے کہ وطن کی مائوں بہنو بیٹیو ! تازہ دم ہو جائو آج رات جشن منائیں گے۔بیٹا تیری غیرت ،تیرے اندر کا خان ، غیورنیازی اگر ساٹھ برس کی عمر میں بھی نہ جاگ سکا تو اٹھارہ کروڑ عوام کی غیرت تیرے سپرد کیسے کر دوں؟شادی تو اپنی مرضی سے کرکے دیکھ لیا ،اب سیاست بھی مرضی کی کر کے دیکھ لے ،اس میں بھی گھاٹا ہو گا ۔پاکستان کی کوئی ذی شعور ماں اپنے پتر کو وزیر اعظم پاکستان دیکھنا نہیں چاہتی۔حتیٰ کہ میاں نواز شریف کی ماں سے بھی جا کر پوچھ لیں ،جب سے ان کا ایک بیٹا فوت ہو ا ہے وہ اپنے دونوں بیٹوں کی زندگیوں کے بارے میں متفکر رہتی ہیں ۔نواز شریف کی بیگم نے حرم شریف میں کہا تھا کہ میں نے اپنے دو نوں بیٹوں کو نصیحت کی ہے کہ کبھی سیاست میں نہ آنا۔اقرباء پروری کا الزام حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔سیاست میں اختلاف رائے ہمیشہ سے موجود رہاہے ۔حضرت عثمان غنی ؓ پر اقرباء پروری کا الزام عائد تھا۔آپ نے اپنی جان کو امن پر ترجیح دی ۔امیر المومنین عثمان غنی ؓ کی جان لینے والے باغی بعد میں ان کے قصاص کا علم اٹھائے حضرت علی ؓ کے خلاف ہو گئے۔باغیانہ رویہ دنیا کی تاریخ میں نئی بات نہیں اور امن کی خاطرحاکموں کا اقتدار چھوڑ دینا بھی معیوب فعل نہیں مگر اس کے نتائج کبھی اچھے ثابت نہیں ہو سکے۔آئین میں ترمیم کر دی جائے کہ کوئی گروہ اٹھ کر ملک کے دارالخلافہ پر چڑھائی کر دے اور حاکم وقت دبائو کے نتیجہ میں گھر چلا جائے تو اس کا فائدہ باغیوں کو نہیں گھر جانے والے کو ہو گا ۔ عوام کی ہمدردیاں بڑھ جائیں گی اور آئیندہ الیکشن میں پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ کامیاب ہو گا۔یہ ہماری خان سے محبت اور ہمدردی ہے کہ ہم انہیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے پر مصر ہیں۔ہم کسی ٹرک پر نہیں کھڑے کہ زمینی حقائق کو سمجھنے سے محروم ہو جائیں۔ خان سے محبت اور ہمدردی ہمیں کبھی نرم اور کبھی سخت لکھنے پر مجبور کر تی ہے۔ گزشتہ دنوںاسلام آباد کے قلب میں ایک سکندر نامی شخص نے ملک کو پوری دنیا میںتماشہ بنا رکھا تھا،اس کی بیوی نے اس کا ساتھ دیا ،اس تماشے میں اس کی بیوی بھی موجود نہیں،بیوی تو قادری کی بھی اولاد کے ساتھ گھر بیٹھی ہوئی ہے ۔ خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں مغرب بھیجتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ بیٹا کبھی گوری سے شادی نہ کرنا ۔والدہ کینسر سے وفات پا گئیں ،ایک گوری نے ریاست کیلی فورنیا میں خان کی ناجائز بیٹی کی ماں ہونے کا دعویٰ کر دیا اور دوسری گوری ان کے جائز بیٹے لے کر اپنے یہودی پیکے لوٹ گئی۔ ماں کی دعائوں کے صدقے اللہ تعالیٰ نے خان سے ایک عظیم کام لیا،پاکستان جیسے غریب ملک کو شوکت خانم کینسر ہسپتال جیسا جدید ہسپتال مہیا کر دیا ۔ہمیں فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی اس عظیم صدقہ جاریہ میں حصہ لینے کی توفیق دی۔ بیٹے نے مرحومہ ماں کی محبت میں کینسر ہسپتال بنا دیا ،خان کے بیٹے ان کی یاد میں مینٹل ہسپتال بھی بنا دیں تو پچھتاوے مٹائے نہیں جا سکتے۔اولاد وہی سعادتمند ہوتی ہے جو والدین کی زندگی میں ان کے لئے سکون و راحت کا باعث بنے۔خان تجھے خدا کا واسطہ ہے ،ٹرک سے نیچے اُتر آئو ،ہمیں تیری ضرورت ہے، تیرے اطراف مفاد پرست ٹولہ تیری قیمت لگوا چکا ہے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024