حضرت عیسیٰ ؑ نے حضرت یسعیاہؑ کا ایک قول دُہراتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’اِس اُمّت کے لوگ زبان سے تومیری عِزّت کرتے ہیں لیکن اِن کے دِل مُجھ سے دُور ہیں‘‘ اپنے قومی ہِیرو ز خاص طور پر مصّورِ پاکستان علاّمہ محمد اقبالؒ اور بانیء پاکستان حضرت قائدِاعظم ؒ کے بارے میں ہمارا بھی یہی رویّہ ہے۔ ہم اپنے اِن دونوں مُحسنوں کی سالگرِہیں اور برسِیاں تو مناتے ہیں۔ اِن کے اقوالِ زریں بھی دُہراتے رہتے ہیں لیکن اُن پر عمل نہیں کرتے۔ 21اپریل کو علّامہ اقبالؒ کی برسی سنجیدگی سے تحریکِ پاکستان کے مجاہد ڈاکٹر مجید نظامی کی سر پرستی اور چیئرمین شپ میں سرگرمِ عمل دو نظریاتی اداروں ’’ تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریہ ء پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے لاہور میں منائی گئی یا پھر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پرمَیں نے ٹیلی وژن پر لاہور میں مُنعقدہ دو اور تقریبات کی جھلکیاں بھی دیکھیں۔ ایک تقریب سے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور خطاب کر رہے تھے اور دوسری کا اہتمام صوبائی وزارتِ اطلاعات و ثقافت کے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے کِیا تھا۔
مَیں نے ٹیلی وژن پر صدرِ مملکت جناب ممنون حسین ،وزیرِاعظم نواز شریف، چاروں وزرائے اعلیٰ اور سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے گورنروں کو علّامہ اقبالؒ کی برسی کی کسی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے نہیں دیکھا۔ ممکن ہے کہ اِن قائدین نے اُس وقت تقریریں کی ہوں جب میرے گھر میں لوڈ شیڈنگ تھی۔جنابِ نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب کی اہمیت اِس لحاظ سے بھی زیادہ تھی کہ اُس میں علاّمہ اقبالؒ کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال اور نبِیرہء اقبال، بیرسٹرولید اقبال نے بھی ’’علامہ اقبالؒ کا نظریہ ء تعلیم ‘‘ اور ’’ قرار دادِ لاہور کا سر چشمہ‘‘ کے عنوان سے خطاب کِیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’علّامہ اقبالؒ نے خُطبہء الہ آباد میں علیحدہ اسلامی ریاست کا تصّور پیش کِیا اور انہوں نے ہی قائدِاعظمؒ کو آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے پر قائل کِیا‘‘۔ جنابِ نظامی نے کہا کہ ’’ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی قیادت عطا فرمائیں جو پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنادے !‘‘ مَیںنے ٹیلی وژن پر دیکھا کہ جنابِ نظامی جب اپنی زبان سے یہ دُعا ئیہ کلمات ادا کر رہے تھے تو وہ مایوس نہیں بلکہ پُر عزم دکھائی دے رہے تھے ،جیسے کہ انہیں یقین ہو کہ پاکستان کو قائدِاعظمؒ کے نقشِ قدم پر چلنے والی قیادت ضرور نصیب ہو گی۔
علاّمہ اقبالؒ کا’’ تصّورِ پاکستان ‘‘کیا تھا؟وہ انہوں نے اپنے خُطبہء الہ آباد 1930 ء میں یوں بیان کِیا تھاکہ ’’برصغِیر میں ایک جُدا گانہ اسلامی ریاست ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کے لئے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے۔ ہندوستان کے لئے یو ں کہ اندرونی توازنِ اقتدار کے باعث تحفظ اور امن پیدا ہو گا اور اسلام کے لئے یوں کہ اُسے موقع ملے گا کہ عرب ملوکیت کی چھاپ سے نجات پا جائے اور اپنے قانون ، تعلیم ،ثقافت کو تحریک دے کرانہیں اپنی اصل روح سے قریب لے آئے اور روح ِ عصر سے ہم آہنگ کر دے ‘‘۔
علاّمہ اقبالؒ (خلافت کے نام پر)عرب ملوکیت کی چھاپ سے نجات کو اسلام کے لئے فائدہ بخش سمجھتے تھے۔(قُربان جائیے اُن مولویوں کے جو اب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’خلیفہ ‘‘بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں )۔قبل ازیں 28مئی 1937ء کو علّامہ اقبالؒ نے قائدِاعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں لِکھا تھا کہ’’مَیں یہ جان کر خوش ہُوا ہوںکہ آپ ان باتوں کو پیشِ نظر رکھیں گے جو مَیں نے آپ کومسلم لیگ کے آئین اور پروگرام کے بارے میں لکھی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہیں جہاں تک ان کی زد مُسلم انڈیا پر پڑتی ہے۔ مسلم لیگ کو بِالآخر اس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے محض اُوپر کے طبقوں کی نمائندہ جماعت ہے یا مسلمان عوام کی جماعت ہے، جنہوں نے ابھی تک معقول وجوہ کی بنا پر اس میں دلچسپی نہیں لی ہے۔ ذاتی طور پر میرا ایمان ہے کہ کوئی ایسی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی قسمت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی ، ہمارے عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی‘‘۔ علّامہ اقبال ؒ کی خواہش کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ عوامی سطح پر اُستوار ہُوئی تو عام مسلمانوں نے اُس کا ساتھ دِیا اور قائدِاعظمؒ کی قیادت میں پاکستان بن گیا اور جب نا اہل فوجی اور سیاسی حُکمران اقتدار میں آگئے تو عوام کا بھلا نہ ہُوا اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ جنابِ مجید نظامی چاہتے ہیں کہ ’’ کشمیر سمیت مسائل کے حل تک بھارت سے تجارت کی جائے اور نہ تعلقات رکھے جائیں ‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ؎
’’ پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھُکا جب غیر کے آگے ،نہ من تیرا نہ تن‘‘
علاّمہ اقبالؒ نے حقیقی مذہب ِ اسلام اور اپنے دَور کے مذہب کا فرق بیان کرتے ہُوئے کہا تھا ؎
’’ وہ مذہب مردانِ خود آگاہ و خُدامست
یہ مذہبِ مُلّا و جمادات و نباتات‘‘
آج کے دَور کا مذہب تو طالبان اور اُن کے سرپرستوں اور حامیوں کی کوششوں سے بہت زیادہ خطرناک نقشہ دِکھا رہا ہے۔ گدّی نشین (حضرت غوث ِ اعظمؒ کی اولادہونے کے دعویدار )سیّد یوسف رضا گیلانی سمیت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کئی پِیران صاحبان کرپشن کے مقدمات میں ملّوث ہیں۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنے دَور کے پِیر صاحبان کے بارے میں کہا تھا ؎
’’ مِیراث میں آئی ہے اِنہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عُقابوں کے نشیمن‘‘
ملکیتِ زمین کے بارے میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ؎
’’اِس سے بڑھ کر اور کیا فِکر و نظر کا انقلاب؟
بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
دہ خدایا! یہ زمیں میری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں ‘‘
سرمایہ دار اور مدوح کے معاشی رشتے کو بیان کرتے ہُوئے علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ؎
’’ کارخانے کا ہے مالِک مرد کِ ناکردہ کار
عیش کا پُتلا ہے، محنت ہے اسے ناسازگار
حُکم حق ہے، لَیس للانسان الا ما سعیٰ
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار‘‘
سیّد کی لوحِ تُربت‘‘ کے عنوان سے علاّمہ اقبالؒ کی ایک نظم 1930ء میں ’’ مخزن‘‘میں شائع ہُوئی تھی جس میں علّامہ اقبالؒ نے تخّیل کے کانوں سے سر سید احمد اخان ؒ کی قبر سے صدائے پُردرد سُنی۔ میرے خیال میں اِس نظم کے یہ دوشعر ( آج کے دَور میں ) ڈاکٹر مجید نظامی کے لئے ہیں ؎
’’ تُو اگر کوئی مُدبّر ہے تو سُن میری صدا
ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا
بندہء مومن کا دِل بِیم و رِیا سے پاک ہے
قُوّتِ فرماں روا کے سامنے بیباک ہے‘‘
جناب مجید نظامی مُدبّر تو ہیں لیکن’’اربابِ سیاست‘‘ میں سے نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو صدرِ پاکستان منتخب ہو کر تاریخ میں نام پیدا کر لیتے مگر انہوں نے پیشکش کے باوجود صدر بننے سے انکار کر دیا۔86سال کی عُمر میں بھی’’ دستِ نظامی میں دلیری کا عصا ‘‘ پاکستان بنانے والوں کی اولاد کے لئے باعثِ فخر ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024