کئی دنوں سے افواہوں کا بازار گر م تھا، قومی ٹیم کا نیا منیجر کون ہوگا، چیف سلیکٹر کی ذمہ داری کس کو ملے گی۔ رپورٹر خبریں دے رہے تھے، ماہرین تبصرے کر رہے تھے۔آخر کار پرچی نکل آئی اور چڑیا نے فال نکالی تواس میں معین خان کا نام تھا۔سابق کپتان اس سے پہلے غیر اعلانیہ چیف سلیکٹر اور منیجر کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ان سے پہلے اس عہدے کیلئے 90 کی دہائی میں ان کے رقیب وکٹ کیپر راشد لطیف کو پیشکش کی گئی تھی تاہم انہوں نے کٹھ پتلی چیف سلیکٹربننے سے انکار کردیا ۔راشد لطیف سے قبل چند گھنٹوں کیلئے عامر سہیل بھی اس عہدے پر آئے لیکن ذکاء اشرف کے ساتھ ہی وہ بھی رخصت ہوگئے۔کرکٹ بورڈ نے ظہیر عباس کو بھی بورڈ چیئر مین کا پرنسپل ایڈوائزر بھی مقرر کیا ہے۔ کوچ کیلئے بھی دوڑ جاری ہے۔ خبر ہے کہ دوبارہ وقار یونس کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سپن بائولنگ کیلئے ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد کے درمیان مقابلہ ہے۔
راشد لطیف نے کرکٹ بورڈ کے ساتھ کام نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا،اس کی بڑی وجہ بورڈ میں موجود ایسے افراد ہیں جو ایک عرصے سے وہاں موجود ہیں اور کسی بھی مناسب شخص کو ذہنی و جسمانی طورپر قبول کرنے کیلئے رضا مند نہیں ہیں۔ راشد کے خلا ف ایک مہم چلائی گئی اور ایسے حالات پیدا کردئیے گئے کہ وہ عملی طورپر ملکی کرکٹ کا حصہ نہ بن سکیں۔ بہتریہی ہوتا کہ وہ الگ ہونے کے بجائے نظام کا حصہ بنتے اور الگ بیٹھ کر خامیوں کی نشاندہی کرنے کی بجائے خود اصلاح کی کوشش کرتے۔ واقفانِ حال یہ بھی کہتے ہیں کہ معین خان چیف سلیکٹر بنناچاہتے تھے چونکہ نجم سیٹھی ذاتی طورپر موجودہ چیف سلیکٹر و منیجر کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بورڈ کے اعلیٰ افسران نے بھی ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے معین خان کیلئے راہ ہموار کرنے کی مہم چلائی، جسمیں وہ کامیاب رہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معین خان کی حالیہ تقرری میں ان کی کھیل کے حوالے سے خدمات سے زیادہ چیئر مین کی ذاتی خواہش اور پسند شامل ہے بلکہ بعض صاحب علم و خبر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نجم سیٹھی معین خان کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ چند ماہ قبل سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز کو معین خان کا ٹیم میں رول ’’کریم رول‘‘ لگتا تھا لیکن اب ان کی رائے بدلنے کا امکان ہے کیونکہ انہیں ہیڈ کوارٹر سے کچھ مثبت اشارے ملے ہیں۔ ہمارے سینئر کو لیگ ندیم بسرا جو کہ نوائے وقت ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ معین خان پہلی اننگز میں بحیثیت منتظم و کوچ مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس حیثیت میں وہ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ سکے۔اس کے باوجود چڑیا کا ان کے گھونسلے میں بیٹھنا کئی ایک سوالات کو جنم دیتا ہے۔
ظہیر عباس کو مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ شاید گذشتہ 72 گھنٹوں میں ملکی کرکٹ کے ساتھ سب سے بڑا مذاق ہے۔ظہیر عباس ورلڈ 20,20 میں قومی ٹیم کی ناکامی کے بعد میڈیا کو جواب دیئے بغیر غصہ میں بھاگ نکلے۔ ایک شخص ایسے ٹمپرامنٹ کا مالک ہے کہ وہ تند و تیز سوالات کا سامنا نہیں کرسکتا، بحیثیت منیجر وہ اپنی اتھارٹی قائم نہیں کرسکا، چند ہفتوں کی مشاورت کے بعد اسکا عہدہ بدلنا پڑا ہے۔ کیا پھر بھی اسکی اہلیت مشکوک نہیں ہوئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کر کیا چیف کنسلٹنٹ کی حیثیت سے انہیں جو ذمہ داری ملی تھی وہ پوری ہوگئی، اب ایک نیا عہدہ نکالا گیا ہے، پہلے چیف کنسلٹنٹ اور اب ایڈوائزر ! یوں لگتا ہے کہ موجودہ چیئر مین کوسب اچھا سننے کی عادت کچھ زیادہ ہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بورڈ میں مختلف شعبوں کیلئے پہلے ہی وہاں کئی ایک مشیران موجود ہیں جو اپنے شعبوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ بوقت ضرورت مدح سرائی کا فریضہ بھی خوب انجام دیتے ہیں پھر بھی عہدے بدل بدل کر نئے لوگوں کو ساتھ ملایاجارہا ہے اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ کوئی خفیہ یا ظاہری، کیا لوگ ظہیر عباس کی بحیثیت منیجر کارکردگی کو بھول چکے ہیں؟ جب انگلینڈ میں کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میچ ’فور فیٹ‘‘ ہوگیا تھا۔ قومی کرکٹ کے ساتھ تجربات جاری ہیں، مفادات کا تحفظ بھی ساتھ ہورہا ہے۔ پورے ملک میں کوئی اہل شخص نہیں تھا جو نجم سیٹھی کو چیئرمین کرکٹ بورڈ لگا دیا گیا۔ ہم ناکام اور چلے ہوئے کارتوسوں کو آزمانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پسند ناپسند پر اہم فیصلے ہورہے ہیں اور خواب ہیںتر قی کے ! حبیب جالب نے بہت برس پہلے کہا تھا…؎
اب بھی شرمندہ نہیں ہیں لوگ اپنی سوچ پر
شہر اجڑے بستیاں کتنی ہی ویران ہوگئیں
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024